پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خواجہ سرا برداری کے بعض افراد کو قومی شناختی کارڈز مبینہ طور پر جاری نا کرنے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت آئندہ پیر کو لاہور میں کرنے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس نے اس معاملے کا نوٹس عید کے موقع پر لاہور میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے قائم ایک غیر سرکاری ادارے فاؤنٹین ہاؤس کے دورے کے دوران اس وقت لینے کا کہا جب خواجہ سرا برداری کے بعض افراد کی طرف سے یہ شکایت کی گئی کہ انہیں قومی شناختی کارڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق چیف جسٹس نے اس معاملے پر وضاحت کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں کے عہدیداروں کو بھی پیر کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا ہے۔
پاکستان کی خواجہ سرا برداری ایک عرصے سے قومی شناختی کارڈز کےحصول کی راہ میں حائل قانونی اور انتظامی مسائل کو اجاگر کرتی آرہی ہے۔ اگرچہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ کوائف کے قومی ادارے 'نادارا' نے انتظامی سطح پر بھی کئی اقدامات کیے ہیں تاہم بعض سماجی مسائل کی وجہ سے اب بھی خواجہ سرا برداری کے لیے شناختی کارڈز کا حصول ایک مشکل امر ہے۔
خواجہ سرا برادری کے حقوق کے لیے سرگرم قمر نسیم نے کہا کہ خواجہ سرا برداری کے لیے شناختی کارڈز کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مطلوبہ دستاویزا ت کی مجاز حکام سے تصدیق کروانا ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا, "جب وہ (خواجہ سرا )ایک نیا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے جاتے ہیں تو دیگر افرد کے طرح انہیں بھی شناختی کارڈز کے لیے درکار دستاویزات کو 17 گریڈ کے افسر یا کسی دوسرے مجاز شخص سے تصدیق کروانا لازمی ہوتا ہے جو کہ خواجہ سراؤں کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے احباب یا جاننے والوں میں کوئی ایسا فرد نہیں ہوتا جو ان کی شناختی دستاویزات کی تصدیق کر سکے۔"
پاکستان کے چیف جسٹس نے خواجہ سرا براداری کے افراد کے لیے شناختی کارڈز کے حصول کے معاملے کا نوٹس ایک ایسے وقت لیا ہے جب پاکستان میں متعدد خواجہ سراؤں نے آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
قمر نسیم نے اس بابت بات کرتے ہوئے کہا, "تقریباً 13 خواجہ سراؤں نے (آزاد حیثیت میں) انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور میری معلومات کے مطابق ملک بھر میں چھ خواجہ سرا ہیں جن کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے ہیں۔ لیکن ایک بڑی تعداد میں خواجہ سرا کاغذات نامزدگی کے ساتھ درکار فیس کے زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نا کروا سکے۔"
بعض مبصرین نے خواجہ سراؤں کی طرف سے الیکشن کے عمل میں حصہ لینے کو ایک خوش آئندہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر وہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم کردار ادا کر سکیں گے۔
قمر نسیم نے کہا کہ پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لیے کثیر مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے بقول خواجہ سرا برادری کے لیے اپنی انتخابی مہم موثر طور چلانا ممکن نہیں ہو گا۔ اس لیے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین اور ملک کے دیگر محروم طبقات کی طرح خواجہ سراؤں کے لیے بھی قانون ساز اداروں میں مخصوص نشستوں کے تحت کوٹہ مقرر کیا جائے۔
حالیہ سالوں میں خواجہ سرا برادری کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملک میں ناصرف کئی قوانین وضع کیے گئے بلکہ انہیں درپیش سماجی مشکلات کے ازالے کے لیے حکومت نے انتظامی سطح پر بھی کئی اقدمات کیے گئے ہیں۔