سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو حکم دیا ہے کہ وہ ججز سے متعلق اپنے دعوے پر یا تو ثبوت دیں یا عدالت سے تحریری معافی مانگیں۔
انور منصور خان نے منگل کو سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے صدارتی ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سے متعلق ایک متنازع بیان دیا تھا۔ جسے عدالت نے صحافیوں کو رپورٹ کرنے سے روک دیا تھا۔
ججز کے اعتراض پر اٹارنی جنرل نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔
بدھ کو سماعت کے دوران عدالت نے بغیر تیاری آنے پر اٹارنی جنرل انور منصور کی سرزنش بھی کی۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارا وقت خوبصورتی کےساتھ ضائع کر رہے ہیں۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
جب سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے اٹارنی جنرل کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر ریفرنس میں عائد الزامات بارے استفسار کیا۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر ریفرنس میں دو الزامات ہیں۔ اُنہوں نے برطانیہ میں اپنے اہل خانہ کی جائیدادیں اثاثوں میں ظاہر نہ کر کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس فائز عیسٰی گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر کر دیتے تو ریفرنس نہ بنتا، انہوں نے گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر نہ کر کے مس کنڈکٹ کیا، انہوں نے جائیدادیں تسلیم بھی کر لی ہیں۔
لہذٰا سپریم جوڈیشل کونسل کی ذمہ داری ہے کہ جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہمیں کیس کا بتا دیں بظاہر تو مقدمہ ٹیکس کا لگتا ہے۔ گزشتہ روز بھی ادھر اُدھر کی باتیں ہوئی تھیں۔ ہمیں کیس پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔ کس لفظ کی کیا تعریف ہے یہ مقدمہ نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسٰی گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر کر دیتے تو کیا آپ ریفرنس دائر کرتے؟َ اسکا مطلب ہے پراپرٹی ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس فیصل عرب نے سوال اُٹھایا کہ میں اگر کوئی پراپرٹی ظاہر نہ کروں تو کیا میرے خلاف ریفرنس دائر ہو گا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم پراپرٹی کی خریداری کے ذرائع کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ جج کے خلاف الزام واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس سجاد علی شاہ علی شاہ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کونسل کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا۔ درخواست گزار جج نے ریفرنس کے آغاز کی کارروائی کو چیلنج کیا۔ اگر ہمارا دائرہ اختیار نہیں تو صاف بات کریں، آپ ہمیں مس کنڈکٹ پڑھا رہے ہیں۔
کیا پراپرٹی پر جواب لیے بغیر ریفرنس بنایا جا سکتا ہے، میں سمجھنے سے قاصر ہوں آپ کیا کہہ رہے ہیں، سب سے پہلے مس کنڈکٹ پر بات کریں۔ بتا دیں پراپرٹی ظاہر کرنا کیوں ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی مجھے دلائل دیتے ہوئے دوسرا دن ہے۔ مس کنڈکٹ کے ساتھ منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی ہے۔ جوڈیشل کونسل ریفرنس پر جج کو شو کاز نوٹس جاری کردے تو کوئی عدالت مخالفت نہیں کر سکتی۔ شوکاز کا مطلب ہے جوڈیشل کونسل ریفرنس پر احتساب کرنے جا رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ بتا دیں کہ ریفرنس کے لیے مواد کس طرح اکھٹا ہوا۔ جو ریلیف عدالت عظمیٰ دے سکتی ہے کیا وہ کونسل دے سکتی ہے۔ جب تک حقائق ہمارے سامنے نہیں ہوں گے آپ کے عدالتی حوالہ جات کو پذیرائی کیسے ملے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج کے حوالے سےحقائق بھی بیان کر دوں گا، سب سے پہلے عدلیہ اور ججز کے لیے اقدار کو پڑھنے دیں۔ کونسل نے جج کے خلاف ابتدائی کارروائی کی اور نوٹس جاری کیا۔
اٹانی جنرل نے کہا کہ کونسل نے ابتدائی کارروائی کے بعد جج کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے شوکاز نوٹس کا جواب داخل کیا، اس وقت تک جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف حکومت نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ شواہد کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہوا، صدارتی ریفرنس میں کونسل سے معاملے کا جائزہ لینے کی استدعا کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کا الزام لگایا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ٹیکس کے معاملے کی انکوائری کے بغیر ریفرنس بنا دیا۔ کیا کوئی شخص اپنی اہلیہ اور بچوں کے غیر ملکی اثاثوں پر قابل احتساب ہے، کیا یہ ایک ایف آئی آر ہے یا صدارتی ریفرنس ہے؟
عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس ٹھوس مواد پر ہوتا ہے۔ جج کی اہلیہ اور بچوں سے جواب مانگے بغیر ریفرنس بنا دیا۔ یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل نے تحریری دلائل دینے سے معذرت کر لی اور کہا کہ عدالت کے تمام سوالوں کا تفصیل سے جواب دوں گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چلیں آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ 'ایسٹس ریکوری' یونٹ کا کام تھا کہ آپ کو قانون بتاتا۔ آپ تیاری کے بغیر عدالت آگئے ہیں۔ آپ ہمارا وقت خوبصورتی کےساتھ ضائع کر رہے ہیں، کل اپ نے اتنی بڑی بات کر دی.
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سوالات کا آئندہ پیشی پر جواب دُوں گا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ججز پر الزامات سے متعلق مواد بھی عدالت میں پیش کریں۔ اگر مواد نہیں ملتا تو اٹارنی جنرل تحریری معافی مانگیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر تھا۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ سماعت کر رہا ہے۔
کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کردی گئی۔
توہین عدالت کی درخواست دائر
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں اٹارنی جنرل کے متنازع دعوے پر پاکستان بار کونسل نے وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس الزام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی جاسوسی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یہ متنازع دعویٰ سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے اور بلیک میل کرنے کے لیے کیا۔ لہذٰا اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے۔