رسائی کے لنکس

امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے رپورٹرز کے فون ریکارڈ کی طلبی کا معاملہ ہے کیا؟


صحافی اور امریکی آئین میں آزادی اظہار کی ضمانت دینے والی پہلی ترمیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے صحافیوں کی رپورٹنگ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
صحافی اور امریکی آئین میں آزادی اظہار کی ضمانت دینے والی پہلی ترمیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے صحافیوں کی رپورٹنگ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی اس خبر پر کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ کے محکمۂ انصاف نے واشنگٹن پوسٹ کے تین رپورٹرز کے فون ریکارڈ حاصل کیے تھے، ملک میں صحافیوں کے کام میں حکومتی مداخلت کے خدشات نے جنم لیا ہے۔

وائس آف امریکہ کے ایرک نیو جیبورن کے مطابق، اگرچہ امریکہ میں حکومت کی جانب سے صحافیوں کے فون ریکارڈ اکٹھے کرنے کے واقعات کم ہی پیش آئے ہیں، صحافیوں اور امریکی آئین میں آزادی اظہار کی ضمانت دینے والی پہلی ترمیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے صحافیوں کی رپورٹنگ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

صحافی اور صحافتی آزادیوں کے علمبردار امریکی محکمہ انصاف پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان صحافیوں کے ریکارڈ حاصل کرنے سے متعلق واقعے کی مزید تفصیلات فراہم کرے۔

یاد رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے سات مئی کو ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور میں محکمہ انصاف نے قومی سلامتی پر رپورٹنگ کرنے والے اخبار کے تین رپورٹرز کا اپریل تا جولائی 2017 کا فون کال ریکارڈ حاصل کیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان ریکارڈز میں ان صحافیوں کے فون نمبروں سے کی جانے والی اور انہیں موصول ہونے والی کالز کے نمبر اور ان نمبرز پر ہونے والی گفتگو کی طوالت کا ڈیٹا شامل تھا۔ ان ریکارڈ میں فون کالز کے دوران ہونے والی گفتگو کا مواد شامل نہیں تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کو اس بات کی خبر سب سے پہلے مئی کے اوائل میں ملی جب اخبار کو محکمہ انصاف کی جانب سے اس بارے میں خطوط موصول ہوئے۔ ان خطوط میں اس ریکارڈ کو حاصل کرنے کی وجوہات بیان نہیں کی گئی تھیں۔ اخبار کے مطابق، جن دنوں کا فون ریکارڈ حاصل کیا گیا، ان دنوں ان رپورٹرز نے روس کی جانب سے 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت پر مشترکہ طور پر کچھ رپورٹس لکھی تھیں۔

ٹینیسی سٹیٹ یونی ورسٹی میں فری سپیچ سینٹر کے ڈائریکٹر کین پالسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا کہ میڈیا کے ریکارڈز کے لیے کس کثرت کے ساتھ سمن کے اجرا کی درخواست کی جاتی ہے اور وہ کیا عوامل ہوتے ہیں جب ایسی درخواستوں کو منظور یا مسترد کیا جاتا ہے۔ تاہم جب بھی ایسے کیسوں میں اضافہ ہوتا ہے، کین پاولسن کے مطابق، فرسٹ امینڈمنٹ (امریکی آئین میں پہلی ترمیم) کے حامیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

اس واقعے کے بعد محکمہ انصاف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسے سمن جاری کرنے سے متعلق اپنے قواعد کی وضاحت کرے۔ اس کے ساتھ ہی میڈیا کے حامیوں کی جانب سے ان قواعد میں ایسی خامیوں کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے جس کی مدد سے صحافیوں اور ان کے ذرائع کی نگرانی کی جا سکتی ہے، اور یہ عمل رپورٹنگ پر گہرے اثرات پیدا کر سکتا ہے۔

کیا امریکہ میں میڈیا آزاد اور صحافی محفوظ ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:19 0:00

یونی ورسٹی آف میری لینڈ کی فلپ میریل کالج آف جرنلزم کی ڈین اور رپورٹرز کمیٹی فار فریڈم آف پریس (آر سی ایف پی) کی 12 برس تک ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہنے والی، لوسی ڈاگلش نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافی حکومتی طاقت اور طاقت کے بے جا استعمال پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس قسم کے مقدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی حکومت ایسا اقدام تب تک نہیں اٹھا سکتی جب تک آپ کے پاس اعلیٰ معیار کی معلومات نہ ہوں۔

امریکہ محکمہ انصاف کے راہنما اصولوں کے مطابق، کسی بھی رپورٹر کے ٹیلی فون ریکارڈ کے حصول کے لیے سمن کی درخواست پر اٹارنی جنرل کے دستخط ہونے چاہیئں اور اس معاملے کو غیر معمولی اقدام کے طور پر دیکھا جانا چاہئے، نہ کہ معمول کی کارروائی۔

ہدایات میں یہ بھی درج ہے کہ ایسے کسی اقدام کے بارے میں متعلقہ صحافیوں کو ایسے سمن بھجوانے سے پہلے مطلع کرنا ضروری ہے وگرنہ اس طرح کے سمن تحقیقات کی ساکھ، قومی سکیورٹی کو نقصان پہنچانے یا کسی کی فوری موت یا اس کو جسمانی نقصان پہنچانے والا خطرہ بن سکتے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے معاملے میں اخبار یا رپورٹرز کو ایسے کسی سمن کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔

رپورٹرز کمیٹی فار فریڈم آف دا پریس (آر سی ایف پی) کے ٹیکنالوجی اینڈ پریس فریڈم پراجیکٹ کے ڈائریکٹر گیب روتھمین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر کہ اس ریکارڈ کی طلبی کے بارے میں محکمہ انصاف کی جانب سے اخبار کو مطلع نہیں کیا گیا، پہلی ترمیم اور صحافت کی آزادی کے حوالے سے خدشات پیدا کرتا ہے۔

آر سی ایف پی نے محکمہ انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے کہ یہ ریکارڈز کیوں طلب کئے گئے اور محکمے نے اخبار کو پیشگی مطلع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی۔

وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے محکمہ انصاف سے تبصرہ مانگنے کے لیے ای میلز کی ہیں مگر محکمے کی جانب سے ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

XS
SM
MD
LG