رسائی کے لنکس

بچھڑے خاندانوں کو نہ ملایا تو کارروائی ہوگی: امریکی عدالت


عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ حکومت 10 جولائی تک پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں اور 26 جولائی تک دیگر دو ہزار بچوں کو ان کے والدین سے ملانے کے انتظامات کرے۔

امریکہ کی ایک عدالت نے حکومت کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے تارکینِ وطن اور ان کے بچوں کو آپس میں ملانے کے لیے دی جانے والی مہلت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی ہے۔

ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو کی وفاقی عدالت کے جج ڈانا سیبرو نے حکام سے کہاہے کہ اگر انہوں نے ان بچوں کو ان کے اہلِ خانہ سے مقررہ ڈیڈلائن کے اندر نہ ملایا تو حکومت کو تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عدالت نے گزشتہ ماہ ٹرمپ حکومت کو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی پاداش میں میکسیکو کی سرحد پر جدا کیے جانے والے تارکینِ وطن اور ان کے بچوں کو آپس میں ملانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ حکومت 10 جولائی تک پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں اور 26 جولائی تک دیگر دو ہزار بچوں کو ان کے والدین سے ملانے کے انتظامات کرے۔

عدالت نے صرف ان بچوں کو اس حکم سے استثنا دیا تھا جن کے والدین یا سگے رشتے داروں کا تعین نہ ہوسکے یا ان کے مجرمانہ ماضی کے پیشِ نظر بچوں کو ان کے حوالے کرنے کو حکام درست نہ سمجھیں۔

صدر ٹرمپ کی حکومت نے عدالت سے اس ڈیڈلائن میں توسیع کی درخواست کی تھی جسے جج ڈانا سیبرو نے منگل کو ہونےو الی سماعت کے دوران مسترد کردیا۔

جج نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ ڈیڈلائن حتمی ہیں اور انہیں محض خوش کن اہداف نہ سمجھا جائے۔

سماعت کے دوران جج نے خاندانوں کی جدائی کے معاملے کو عدالت لانے والی غیر سرکاری تنظیم 'امریکن سول لبرٹیز یونین' (اے سی ایل یو) کو حکم دیا کہ وہ منگل کی رات تک پانچ سال سے کم عمر کے 63 بچوں کو ان کے والدین سے ملانے میں ناکامی کی صورت میں اگلی سماعت پر متبادل اقدامات تجویز کرے۔

تاہم عدالت نے یہ واضح نہیں کہ اگر حکومت اس کی ڈیڈلائن پر عمل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ کس طرح کی تادیبی کارروائی کرے گی۔

مقدمے میں 'اے سی ایل یو' کے وکیل لی گیلیرنٹ نے کہا ہے کہ عدالت کے پاس حکومت پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے علاوہ بھی کئی آپشن موجود ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ بچوں کے رشتے داروں کے تعین کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے اور ان کے ماضی کی چھان بین اور حراست سے رہا ہوجانے والے والدین کو تلاش کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

لیکن 'ای سی ایل یو' نے عدالت میں جمع کرائے جانے والے اپنے بیان میں حکومت کا یہ موقف مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سارا بحران حکومت کی اپنی پالیسی کا پیدا کردہ ہے جس کی سزا بچوں کو نہیں ملنی چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف 'زیرو ٹالرنس پالیسی' کا اعلان کیا تھا۔

اس نئی پالیسی کے تحت بلا اجازت سرحد پار کرنے والے خاندانوں کے بالغ افراد کو جیل بھیجا جارہا تھا جب کہ ان کے ساتھ آنے والے بچوں کو حکومت کی نگرانی میں چلنے والے کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔

اس پالیسی کے تحت اپریل کے آخر سے جون کے وسط تک کل 2300 بچوں کو ان کے والدین یا سرپرستوں سے جدا کیا گیا۔

بعد ازاں اندرون و بیرونِ ملک ہونے والے سخت احتجاج کے بعد ٹرمپ حکومت نے 20 جون کو یہ پالیسی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم یہ پالیسی ختم کیے جانے کے باوجود اب بھی سیکڑوں ایسے بچے سرکاری کیمپوں میں موجود ہیں جنہیں تاحال ان کے والدین یا سرپرستوں کے حوالے نہیں کیا جاسکا ہے۔

XS
SM
MD
LG