ہفتے کے روز امریکہ بھر کے شہروں میں مظاہرین نے یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ خاندانوں کو جدا نہ کیا جائے، ٹرمپ انتظامیہ سے سرحد پر زیرو برداشت پالیسی کے خاتمے کا مطالبہ کیا جو امریکی عہدے داروں کو ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر مجرم ٹہرا سکتی ہے۔
سب سے بڑا مظاہرہ وائٹ ہاؤس کے سامنے ہوا۔ نیو یارک میں مظاہرین نے بروکلین برج کے آر پار مارچ کیا۔ لوگوں نے لاس اینجلس، ہیوسٹن ، شکاگو اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی مظاہرہ کیا۔
اوہائیو میں مظاہرے میں شریک بروس جونسن کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک تارکین وطن کا ملک ہے اور اب یہ سوچنا کہ ترک وطن کرنا ایک بری چیز ہے۔ میرے لئے اسے ایک مستند دلیل کے طور پر قابل قبول سمجھنا بھی تعجب کی بات ہے ۔
نیو یارک کے ایک مظاہرے میں شریک لنڈا مارکس کا کہنا تھا، میرا کہنا یہ ہے کہ انہیں اپنے ماضی پرنظر ڈالنی چاہیے اور ان تارکین وطن کو سامنے رکھنا چاہیے جو یہاں آئے اور جن کے بل پر وہ یہاں ہیں ۔اگر ا ن کے آباء نے ایسا کیا تھا تو انہیں اب ایک بہت مختلف سوچ رکھنی چاہیے تھی۔
کینٹی کٹ میں مظاہرے میں شریک ایلزبتھ سینڈرز کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ کوئی اس پر توجہ دے گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ لازمی طور پر اپنی سوچ نہ بدلیں، لیکن انہیں اس چیز کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ بہت سے لوگ اس کے اتنا زیادہ خلاف ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خيالات پر نظر ثانی کر سکیں ۔
بچوں کو والدین سے جدا کرنے کی اس پالیسی کے بارے میں وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے نیو یارک کی ایک معروف صحافی طیبہ ضیا چیمہ نے کہا کہ بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے کی یہ پالیسی غیر قانونی تو چھوڑیں غیر انسانی ہے اور انسانی حقوق کا ایک مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ایک علمبردار سمجھا جاتا ہے اس کا یہ اقدام دنیا بھر میں اس کا ایک مسخ اور بگڑا ہوا چہرہ پیش کر رہا ہے۔ طیبہ نے زور دے کر کہا کہ حکومت کو اس پالیسی کو فوراً منسوخ کرنا چاہیے اور ملک میں آنے والے ان بچوں کو قانونی اسٹیٹس دینا چاہیے ۔
ہیوسٹن میں ایک اٹارنی اور ڈیمو کریٹک ڈیلی گیٹ ظفر طاہر نے اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس پالیسی کے خلاف تمام ڈیمو کریٹس اور بہت حد تک ری پبلیکنز میں اتفاق ہو چکا ہے اوراب یہ فیصلہ ہو ا ہے کہ بچے اپنے والدین کے ساتھ حراستی مراکز میں رہیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو حراستی مراکز میں کیوں رکھا جائے۔ بچوں کی جگہ حراستی مراکز نہیں ہیں ۔ آزاد فضا میں رہنا، اسکول جانا اور ذہنی اور جسمانی بالیدگی ان کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دنیا بھر کے کسی بھی لٹے پٹے یا ظلم کے شکار یا جان کے خطرے میں مبتلا شخص کے لیے ایک امید کی کرن ہے اور اس پالیسی کے خلاف جو کوئی بھی ہو گا امریکہ کا ہر شخص اس کے خلاف ہو گا۔ ا انہوں نے مزید کہا کہ ہیوسٹن میں بھی ایک حراستی مرکز قائم کیا جا رہا تھا لیکن اس کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ہیوسٹن کی مقامی پولیس اور مقامی انتظامیہ بھی اس حق میں نہیں ہیں کہ ان کے شہر میں ایسا کوئی حراستی مرکز قائم ہو ۔
ظفر طاہر نے کہا کہ ری پبلکنز کو یہ پالیسی واپس لینا ہوگا اور اس گھمبیر مسئلے کا کو حل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ امیگریشن کے اس مسئلے کا ایک حتمی حل یہ ہی ہے کہ دونوں جماعتوں کے ارکان مل کر بیٹھیں اور اس بارے میں کوئی ایسی پالیسی بنائیں جو امریکی روايات، اقداراور اس کے اس تاریخی کردار کے مطابق ہو کہ امریکہ دنیا بھر میں کسی بھی ستم رسیدہ یا جان کے خطرے میں مبتلا شخص کے لیے امید کی اک کرن اور ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں آکر وہ امن و آشتی سے رہ سکتا ہے ۔
اس پالیسی کے تحت 2500 بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر دیا گیا جس کے بعدعوامی شور و غوغا کے نتیجے میں ٹرمپ نے اس پالیسی کو بیس جون کو بدل دیا ۔ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے کے مطابق 500 سے زیادہ بچے اپنے خاندانوں سے دوبارہ مل چکے ہیں تاہم 2047 بچے ابھی تک اپنے والدین سے جدا ہیں۔