اسلام آباد —
ملک کے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مقامی نجی ٹی وی چینل جیو کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی شہر میں ہونے والے اس حملے کی ’’آزادانہ اور نتیجہ خیز‘‘ تحقیقات کرواتے ہوئے اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مظاہرے میں شریک ایکسپریس ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کے میزبان اور کالم نگار جاوید چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس حملے کو صحافت پر وار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں بہت سارے عنصر ہیں۔ دہشت گرد بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ جیسے ان کے بھائی نے الزام لگایا تو آئی ایس آئی کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ حکومت وقت کو بھی کہہ سکتے ہیں اور معاشرے کے وہ طبقے بھی ہو سکتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ صحافی آزادانہ کام کر سکیں۔‘‘
حامد میر پر حملے کے کچھ ہی دیر کے بعد ان کے بھائی کی طرف سے اس کا الزام فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر عائد کرنے کا بیان سامنے آیا تاہم کئی سینئیر صحافیوں اور مبصرین نے اسے قبل از وقت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے پہلے ایسا بیان ملک اور اس کے اداروں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود اس بارے میں کچھ یوں کہتے ہیں کہ ’’فوج اور سول (حکومت کے) تعلقات پہلے ہی خراب چل رہے ہیں اور یہ پھر ایک نیا (معاملہ) سامنے آ گیا ہے، تو انہیں موقع ملے گا جو تعلقات اچھے نہیں چاہتے۔‘‘
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے ایک بیان میں صحافی حامد میر پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔
پہلی مرتبہ چند مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بھی اس واقعے اور اس کی ذمہ داری سے متعلق مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ سینیئر صحافی عامر متین اس بارے میں کہتے ہیں۔
’’دو یا تین گروپوں میں جو لڑائی ہے اس کی وجہ سے تقسیم نظر آتی ہے۔ تو اب (ایڈیٹوریل) معاملات میں مالکان کا عمل دخل اتنا ہو گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا چلنا چاہیئے اور کیا نہیں۔‘‘
بین الاقوامی انسانی حقوق اور صحافیوں کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں 90 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں تاہم اب تک کسی بھی واقعہ میں ملوث افراد کو سزا نا مل سکی۔
جیو ٹی وی کے سینیئر صحافی اور پروگرام کے میزبان سلیم صافی کہتے ہیں۔
’’اگر ماضی میں سلیم شہزاد، ہدایت اللہ جیسے درجنوں صحافیوں کے قتل کے واقعات کی تحقیقات ہوتیں اور مجرمان کو سزا ملتی تو ایسے واقعات کی صورت میں یہ بدقسمت رجحان سامنے نہیں آتا کہ کچھ لوگوں نے ریاستی اداروں کی طرف بھی انگلیاں اٹھائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام اور رجحان کو زائل کرنے کے لیے حامد میر کے کیس کو ’’نمونہ‘‘ بنا کر ’’زبانی کلامی تحقیقاتی کمیشنز کی بجائے حقیقی معنوں میں تحقیقات کی جائیں۔‘‘
پاکستان فوج کے ترجمان نے آئی ایس آئی پر الزامات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے کی آزاد تحقیقات ہونی چاہیئں۔
مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی شہر میں ہونے والے اس حملے کی ’’آزادانہ اور نتیجہ خیز‘‘ تحقیقات کرواتے ہوئے اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مظاہرے میں شریک ایکسپریس ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کے میزبان اور کالم نگار جاوید چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس حملے کو صحافت پر وار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں بہت سارے عنصر ہیں۔ دہشت گرد بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ جیسے ان کے بھائی نے الزام لگایا تو آئی ایس آئی کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ حکومت وقت کو بھی کہہ سکتے ہیں اور معاشرے کے وہ طبقے بھی ہو سکتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ صحافی آزادانہ کام کر سکیں۔‘‘
حامد میر پر حملے کے کچھ ہی دیر کے بعد ان کے بھائی کی طرف سے اس کا الزام فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر عائد کرنے کا بیان سامنے آیا تاہم کئی سینئیر صحافیوں اور مبصرین نے اسے قبل از وقت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے پہلے ایسا بیان ملک اور اس کے اداروں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود اس بارے میں کچھ یوں کہتے ہیں کہ ’’فوج اور سول (حکومت کے) تعلقات پہلے ہی خراب چل رہے ہیں اور یہ پھر ایک نیا (معاملہ) سامنے آ گیا ہے، تو انہیں موقع ملے گا جو تعلقات اچھے نہیں چاہتے۔‘‘
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے ایک بیان میں صحافی حامد میر پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔
پہلی مرتبہ چند مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بھی اس واقعے اور اس کی ذمہ داری سے متعلق مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ سینیئر صحافی عامر متین اس بارے میں کہتے ہیں۔
’’دو یا تین گروپوں میں جو لڑائی ہے اس کی وجہ سے تقسیم نظر آتی ہے۔ تو اب (ایڈیٹوریل) معاملات میں مالکان کا عمل دخل اتنا ہو گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا چلنا چاہیئے اور کیا نہیں۔‘‘
بین الاقوامی انسانی حقوق اور صحافیوں کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں 90 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں تاہم اب تک کسی بھی واقعہ میں ملوث افراد کو سزا نا مل سکی۔
جیو ٹی وی کے سینیئر صحافی اور پروگرام کے میزبان سلیم صافی کہتے ہیں۔
’’اگر ماضی میں سلیم شہزاد، ہدایت اللہ جیسے درجنوں صحافیوں کے قتل کے واقعات کی تحقیقات ہوتیں اور مجرمان کو سزا ملتی تو ایسے واقعات کی صورت میں یہ بدقسمت رجحان سامنے نہیں آتا کہ کچھ لوگوں نے ریاستی اداروں کی طرف بھی انگلیاں اٹھائیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام اور رجحان کو زائل کرنے کے لیے حامد میر کے کیس کو ’’نمونہ‘‘ بنا کر ’’زبانی کلامی تحقیقاتی کمیشنز کی بجائے حقیقی معنوں میں تحقیقات کی جائیں۔‘‘
پاکستان فوج کے ترجمان نے آئی ایس آئی پر الزامات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے کی آزاد تحقیقات ہونی چاہیئں۔