اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے سینیئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے تین رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ عدالتی کمیشن کے تشکیل کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے باضابطہ درخواست کی جائے گی۔
بیان کے مطابق حکومت نے اس حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری میں معاونت سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔
پاکستان کے سینیئر صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے کی پر زور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اُنھیں ہفتہ کی شام کراچی میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
حامد میر کے بھائی نے ہفتہ کی شب اپنے فوری ردعمل میں اس حملے کا الزام پاکستان انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر لگایا تھا۔ تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان میں حامد میر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بغیر شواہد اور ثبوت کے آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ پر الزامات لگانا ’قابل افسوس‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔
فوج کے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حقائق جاننے کے لیے حملے کی فوری اور آزادانہ انکوائری کروائی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے حامد میر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیوں کہ یہ حملہ کراچی میں کیا گیا، اس لیے ابتدائی تحقیقات کے لیے اُن کے بقول وفاق صوبائی حکومت سے مکمل تعاون کرے گا۔
’’کسی تحقیق سے پہلے، کسی تفتیش سے پہلے میں کوئی لفظ اپنے منہ سے نہیں نکال سکتا۔ جس سے تفتیش یا تحقیق متاثر ہو سکتی ہو۔‘‘
اُدھر امریکہ نے بھی صحافی حامد میر پر بیہمانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حملوں کا یہ سلسلہ باعث تشویش ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ آزادی اظہار اور فعال جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ محفوظ رہتے ہوئے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
جین ساکی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ایسے حملے پاکستان میں جمہوریت کی قدر کرنے والوں کو چونکا دینے کے لیے کافی ہونے چاہیئں۔
حامد میر کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان نے زور دیا کہ حکومت پاکستان میڈیا پر ایسے حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
صحافی حامد میر ہفتہ کی شام اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے اور ہوائی اڈے سے اپنے دفتر جاتے ہوئے راستے میں اُن پر نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی۔ اُنھیں فوری طور پر نجی اسپتال پہنچایا گیا، حامد میر کو کم از کم تین گولیاں لگیں تاہم آپریشن کے بعد سے اُن کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
کیوں کہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا اس لیے سندھ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ عدالتی کمیشن کے تشکیل کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے باضابطہ درخواست کی جائے گی۔
بیان کے مطابق حکومت نے اس حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری میں معاونت سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔
پاکستان کے سینیئر صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے کی پر زور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اُنھیں ہفتہ کی شام کراچی میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
حامد میر کے بھائی نے ہفتہ کی شب اپنے فوری ردعمل میں اس حملے کا الزام پاکستان انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر لگایا تھا۔ تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان میں حامد میر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بغیر شواہد اور ثبوت کے آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ پر الزامات لگانا ’قابل افسوس‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔
فوج کے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حقائق جاننے کے لیے حملے کی فوری اور آزادانہ انکوائری کروائی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے حامد میر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیوں کہ یہ حملہ کراچی میں کیا گیا، اس لیے ابتدائی تحقیقات کے لیے اُن کے بقول وفاق صوبائی حکومت سے مکمل تعاون کرے گا۔
’’کسی تحقیق سے پہلے، کسی تفتیش سے پہلے میں کوئی لفظ اپنے منہ سے نہیں نکال سکتا۔ جس سے تفتیش یا تحقیق متاثر ہو سکتی ہو۔‘‘
اُدھر امریکہ نے بھی صحافی حامد میر پر بیہمانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حملوں کا یہ سلسلہ باعث تشویش ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ آزادی اظہار اور فعال جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ محفوظ رہتے ہوئے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
جین ساکی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ایسے حملے پاکستان میں جمہوریت کی قدر کرنے والوں کو چونکا دینے کے لیے کافی ہونے چاہیئں۔
حامد میر کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان نے زور دیا کہ حکومت پاکستان میڈیا پر ایسے حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
صحافی حامد میر ہفتہ کی شام اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے اور ہوائی اڈے سے اپنے دفتر جاتے ہوئے راستے میں اُن پر نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی۔ اُنھیں فوری طور پر نجی اسپتال پہنچایا گیا، حامد میر کو کم از کم تین گولیاں لگیں تاہم آپریشن کے بعد سے اُن کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
کیوں کہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا اس لیے سندھ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔