رسائی کے لنکس

کراچی: گرفتار صحافی کی ضمانت پر رہائی کا حکم


نصر اللہ کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ (فائل)
نصر اللہ کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ (فائل)

انسداد دہشتگردی عدالت میں درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے نصراللہ خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کیس میں پولیس کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے گئے، جبکہ سرکاری وکیل کی جانب سے درخواست ضمانت کی مخالفت کی گئی تھی

کراچی سے گرفتار صحافی نصر اللہ خان کو انسداد دہشتگردی عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے ملزم کو ایک لاکھ روپے کے ضمانیتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔۔ نصر اللہ خان پر ممنوعہ لٹریچر رکھنےاس کی تشہیر اور کالعدم جماعتوں کی ملاقاتیں کرانے کا الزام ہے۔

کراچی پریس کلب کے ممبر اور اردو روزنامہ ’نئی بات‘ سے منسلک نصراللہ خان کو سندھ پولیس کے ’کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ‘ کو القاعدہ کا سہولت کار قرار دیا تھا۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے درج کردہ ایف آئی آر کے مطابق، ملزم القاعدہ کے مبینہ دہشتگرد خالد مکاتی کا سہولت کار ہے۔

انسداد دہشتگردی عدالت میں درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے نصراللہ خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پولیس نے محض شک کی بنیاد پر ایک صحافی پر کیس رجسٹرڈ کیا تھا۔ کیس میں پولیس کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے گئے، جبکہ سرکاری وکیل کی جانب سے درخواست ضمانت کی مخالفت کی گئی تھی۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صدر، ملک احمد اعوان نے عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نصراللہ خان پر عائد کئے گئے الزامات غلط ہیں اور ان کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا‘‘۔

پریس کلب کے صدر کا کہنا تھا کہ ’’صحافی پہلے بھی اور اب بھی کسی بھی الزام کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کے لئے تیار ہیں‘‘۔

دوسری جانب سی ٹی ڈی نے نصراللہ خان کی گرفتاری کو کراچی میں جاری بین الاقوامی دفاعی نمائش کو محفوظ بنانے کی کڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔

سی ٹی ڈی حکام نے اس بارے میں جاری پریس ریلیز میں دعویٰ کیا تھا کہ ملزم نصراللہ خان نے القاعدہ کے بدنام دہشت گرد خالد مکاشی کی مالی معاونت کے لئے ڈھائی لاکھ روپے دئیے۔

ادھر کراچی پریس کلب نے نصراللہ خان کی گرفتاری کو ’’مکمل طور پر غیرقانونی، غیر آئینی‘‘ جبکہ ان پر عائد الزامات کو ’’من گھڑت‘‘ قرار دیا ہے۔

نصراللہ خان کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام کے تحت 11 نومبر کو پولیس نے گرفتار کیا اور ان پر مقدمہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس سے قبل، جمعرات 8 نومبر کی رات سندھ پولیس کے ’کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ‘ کے اہلکاروں نے پریس کلب کے اندر گھس کر کلب کے کچن، اسپورٹس کمپلیکس اور دیگر جگہوں کی تلاشی لیتے ہوئے کلب کی چھت پر فلم بینی بھی کی تھی۔ واقعے کے خلاف صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے اور گورنر سندھ کے باہر دھرنا بھی دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG