رسائی کے لنکس

جرم میں ملوث شخص کو پریس کلب میں چھپنے نہیں دیں گے، فواد چوہدری


پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران۔ 14 نومبر 2018
پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران۔ 14 نومبر 2018

صحافی نصراللہ کی گرفتاری کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اطلاعات کی بنیاد پر چھاپہ مارا  اور جو افراد گرفتار ہونے تھے وہ ہو گئے ہیں اور اب وہ نتائج کا سامنا کریں گے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس بیان کی مذمت کی ہے۔

پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کے اداروں کو اپنا بزنس ماڈل تبدیل کرنا ہو گا۔ صرف حکومت کے وسائل پر میڈیا کے ادارے چلانا ممکن نہیں ہے۔

کراچی پریس کلب میں چھاپے مارے جانے کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کوئی بھی جو غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو گا، اسے گرفتار کرنے کا حق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حاصل ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جارہی ہے کیونکہ اس وقت پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے الگ الگ ادارے قائم ہیں، ان تینوں اتھارٹیز کے الگ الگ ہونے سے یہ کام ہی نہیں کر رہیں، لہذا ان تینوں کو ملا کر ایک ادارہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ادارہ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے میڈیا کو ریگولیٹ کرے گا۔، یہ ادارہ کاپی رائٹس سمیت میڈیا کے اداروں کی بھی مدد کرے گا اور انہیں ریگولیٹ کر سکے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینسر شپ اور میڈیا پر دباؤ کے حوالے سے انہوں نے تمام اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم اتنے طاقتور نہیں کہ میڈیا کے اداروں میں لوگوں کو نوکریوں سے نکلوا سکیں۔ حکومت یہ جرات نہیں کر سکتی کہ کسی شخص کو رکھنے یا نکالنے کے لیے میڈیا سے بات کرے۔ میڈیا ہاؤسز بہت تگڑے ہیں۔ اس حوالے سے آنے والے تمام تر اطلاعات غلط ہیں۔

کراچی پریس کلب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چھاپے کے حوالے سے کوئی مس انڈرسٹیندگ نہیں ہوئی۔ کوئی بھی پاکستانی شہری کسی جرم میں ملوث ہو گا، خواہ وہ صحافی یا کوئی بھی ہو، پریس کلب ہو یا کوئی بھی جگہ ہو، اتھارٹی ان کو گرفتار کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم پریس کلبوں کو خط لکھنے جا رہے ہیں کہ وہ اپنے ممبران کی مکمل چھان بین کرے، کیونکہ بعض افراد صحافی نہیں لیکن وہ پریس کلب کے کارڈز بنوا کرپریس کلبوں کو چھپنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ وکلا کے ساتھ بھی ہے۔ لہذا ان کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے۔ صرف کارڈ کی بنا پر ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی جرم میں ملوث ہوں اور کلب میں چھپنے پر انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔

صحافی نصراللہ کی گرفتاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اطلاعات کی بنیاد پر چھاپہ مارا اور جو افراد گرفتار ہونے تھے وہ ہو گئے ہیں اور اب وہ نتائج کا سامنا کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان یونین آف فیڈرل جرنلسٹس نے فواد چوہدری کے اس انٹرویو کی مذمت کی ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے بیان کا عکس
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے بیان کا عکس

پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا مکمل انٹرویو 15 نومبر کو وائس آف امریکہ کے ٹیلی وژن شو ویو360 میں نشر کیا گیا۔

پرانے چینل بند ہونے اور نئے چینل کھلنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آئندہ دس سال میں لائسنس کا تصور نہیں رہے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کا بزنس ماڈل غلط ہے اور ان کا انحصار صرف حکومت پر ہے۔ گذشتہ حکومت نے 12 سے 13 ارب روپے کی مارکیٹ کو میڈیا کے لیے 40 ارب تک پہنچا دیا۔ ایک میڈیا ہاؤس کے مالک نے کہا کہ وہ 65 فیصد حکومتی اشتہارات پر چل رہے تھے۔ ایسے اداروں کو بند ہو جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت مشکل معاشی صورت حال میں ہیں اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہم چین اور باقی جگہ سے قرضے لے کر میڈیا کو تشہیر کے لیے کیسے 40,50 ارب دے سکتے ہیں۔

فیک نیوز کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بعض خبروں کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کو خطرہ تھا۔ خاص طور پر آسیہ بی بی کے معاملہ میں غلط اطلاعات پھیلائی گئیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے آسیہ کی روانگی کی غلط خبر شائع کی جس کی وجہ سے شہروں کو بند کیا جا سکتا تھا اس کے علاوہ آرمی چیف کی تصویریں لگا کر غلط پوسٹس کی گئیں۔ اگر ان معاملات پر قتل و غارت ہو جائے تو کون ذمہ دار ہو گا۔ لہذا ہمیں ان چیزوں پر کنٹرول کرنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG