رسائی کے لنکس

اسرائیل: لیبارٹری میں تیار شدہ مرغی کے گوشت کے پکوان مقبول   


دنیا بھر میں سائنس دان بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خوراک سے متعلق نئے نئے تجربات کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں سائنس دان بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خوراک سے متعلق نئے نئے تجربات کر رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں روز مرّہ کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے جدید چیزیں ایجاد کی جا رہی ہیں وہیں اب فوڈ انڈسٹری میں بھی جدّت آ رہی ہے۔

دنیا بھر میں سائنس دان بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خوراک سے متعلق نئے نئے تجربات کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حال ہی میں اسرائیل میں لیب میں مرغی کا گوشت تیار کیا گیا ہے جس سے متعلق سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گوشت ماحول دوست اور دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

وسطی اسرائیل کے ٹاؤن نیس زیونا کے ایک سے چھوٹے ریستوران میں لیبارٹری میں تیار کردہ مرغی کے گوشت کے برگر اور دیگر کھانے پیش کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیل کے اس ریستوران میں فروخت کیا جانے والا گوشت ’سپر میٹ‘ نامی اسٹارٹ اپ کمپنی کی جانب سے تیار کیا جا رہا ہے۔ تاہم، یہ کمپنی متعلقہ ریگولیٹری کی منظوری کی منتظر ہے۔

اس ریستوران سے متصل لیبارٹری موجود ہے جہاں مرغی کا گوشت تیار کیا جاتا ہے۔ ریستوران کی وسیع کھڑکیوں سے یہاں آنے والے افراد لیبارٹری کے اندر گوشت کی تیاری کے مراحل دیکھ سکتے ہیں۔

وسطی اسرائیل کے ٹاؤن نیس زیونا کے ایک سے چھوٹے ریستوران میں لیبارٹری میں تیار کردہ مرغی کے گوشت کے برگر اور دیگر کھانے پیش کیے جا رہے ہیں۔
وسطی اسرائیل کے ٹاؤن نیس زیونا کے ایک سے چھوٹے ریستوران میں لیبارٹری میں تیار کردہ مرغی کے گوشت کے برگر اور دیگر کھانے پیش کیے جا رہے ہیں۔

سپر میٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ایدو ساویر کا کہنا ہے کہ ’دنیا میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ لوگ لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت اسے اپنی آنکھوں سے بنتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں۔‘

لیبارٹری میں مرغی کے گوشت کو تیار کرنے کے اس عمل میں مرغی کے انڈوں سے خلیے لیے جاتے ہیں۔

بعدازاں ان خلیوں میں پلانٹ بیسڈ (پودوں پر مبنی) پروٹین، فیٹ، شکر، نمکیات اور وٹامنز شامل کیے جاتے ہیں۔

کمپنی کے مطابق جب خلیوں میں تمام تر اجزا شامل کر دیے جاتے ہیں تو اس کی تیزی سے نشونما ہوتی ہے۔

'اے ایف پی' کے مطابق اسرائیل کے شہر ٹیل اویو سے تعلق رکھنے والے شہری گلی کانفی کا لیب میں تیار کردہ مرغی کے گوشت کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ بے حد مزیدار ہے، اس کا ذائقہ بہترین ہے۔‘

اسرائیلی شہری کا کہنا ہے کہ اگر مجھے یہ بات نہ معلوم ہوتی کہ اس گوشت کو لیب میں تیار کیا گیا ہے تو مجھے یہ بالکل ایک عام مرغی کے گوشت کا برگر ہی لگتا۔

لیبارٹری میں مرغی کا گوشت تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ جینیاتی انجینئرنگ اور اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے بغیر اخلاقی اور پائیدار طریقے سے جانوروں کو ذبح کرنے سے پاک گوشت کی تیاری کے لیے کام کر رہے ہیں۔

سپر میٹ کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو کا ماننا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانیت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
سپر میٹ کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو کا ماننا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانیت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی فی الحال ہر ہفتے 100 کلو گرام گوشت تیار کرنے کے قابل ہے۔

لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کا مستقبل کیا ہے؟

سپر میٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ایدو ساویر کو امید ہے کہ ان کے تیار کردہ گوشت کو جلد امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی جانب سے باقاعدہ منظوری مل جائے گی اور پھر وہ اپنی پیداوار میں کمرشل بنیادوں پر اضافہ کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے گوشت تیار کرنے سے زمین، پانی اور دیگر ذرائع کی بچت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاف ستھری اور صحت مند غذا میسر ہو گی۔

اقوام متحدہ کے فوڈ اور ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق 2027 تک عالمی گوشت کی پیداوار میں 15 فی صد اضافے کے امکانات ہیں۔

یاد رہے کہ سپر میٹ یہ ٹیکنالوجی تیار کرنے والی پہلی کمپنی نہیں ہے بلکہ اس سے قبل سنگاپور میں ایک ریستوران نے بھی لیب میں تیار کردہ مرغی کا گوشت متعارف کرایا تھا۔

دوسری جانب کمپنی نے پالتو جانوروں کے لیے بھی خوراک تیار کی ہے۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ پالتو جانوروں کو ہمارا لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت بے حد پسند ہے۔

اسرائیل کی مذہبی تنظیم اسرائیل چیف ریبینیٹ کونسل کے ممبر ایلیزر سمچا وائز کا کہنا ہے کہ ’جانوروں کو ذبح کیے بغیر گوشت تیار کرنا ماحول دوست اور ایک مثبت اقدام ہے جو کہ دنیا کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس گوشت کو تیار کرنے کے عمل کو جاننا اور اس کی نگرانی کرنا ہو گی۔

اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی مشیر ٹل گلبوا کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے برقرار رکھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

سپر میٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا ماننا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے پوری دنیا کو استفادہ کرنا چاہیے۔

ان کے بقول، جیسے ہم نے اسمارٹ فونز میں انقلاب دیکھا ہے ویسے ہی مستقبل میں ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں گوشت کی پیداوار ممکن بنا سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پوری دنیا کی اقوام کے لیے غذائی تحفظ میں اضافہ ہوگا، یہ انتہائی پائیدار اور مؤثر طریقہ کار ہے۔

XS
SM
MD
LG