رسائی کے لنکس

حماس سے سرنگوں کی لڑائی میں روبوٹس اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال


اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف اس کی جنگ میں سرنگوں کا صفایا کرنا لڑائی کا ایک اہم حصہ ہے اور وہ ان تاریک، تنگ اور سینکڑوں کلومیٹرز پر پھیلی ہوئی پر خطر سرنگوں میں اپنے فوجی بھیجنے کی بجائے ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے طریقے اپنا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے "رائٹرز" کی ایک رپورٹ کے مطابق ان طریقوں میں راستہ ڈھوندنے والا روبوٹ، دھماکہ خیز "جل"(Jel) اور دور سے کنٹرول کی جانے والی ٹیکنالوجی شامل ہیں۔

ایک واقعہ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی غزہ میں ایک خالی اسپتال کے نیچے حماس کی سرنگ کے داخلی راستے کا پتہ لگانے کے بعد اسرائیلی فوج کے انجینئروں نے اس راستے کو دھماکہ خیز جل سے بھر دیا اور پھر اسے ڈیٹونیٹر سے اڑا دیا۔

اس کارروائی پر نظر رکھنے والے آلات کی فوٹیج سے ظاہر ہوا کہ دھماکے نے زیر زمین تنصیب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بیت حنون نامی شہر کے علاقے میں ایک سڑک کے ساتھ ساتھ کم از کم تین مقامات سے دھواں فضا میں بلند ہونے لگا۔جس سے یہ جاننے میں مدد ملی کہ یہ سرنگ کہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔

ایک اسرائیلی فوجی افسر نے جنوبی اسرائیل میں "زیلیم گراؤنڈ فورسز بیس" پر ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا، "جل پھٹ کر پھیل گئی اور سرنگ میں جو چیز بھی ہمارے انتظار میں رکھی گئی تھی، تباہ ہو گئی ۔"

اسرائیلی فورسز تہہ خانوں،زیر زمین جانے والے راستوں اور سرنگوں میں جانے کے لیے گولہ باری کا استعمال نہیں کر رہیں بلکہ اس کی بجائے وہ کھوج لگانے والے روبوٹ اور ریموٹ کنٹرول ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہیں تاکہ فوجیوں کےجانی نقصان سے بچاجا سکے۔

لڑائی کے نئے طریقوں کی تفصیلات ظاہر کرنے سے گریز

اسرائیلی افسر نے یہ بریفنگ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کی اور زیر زمین لڑائی کی مزید تفصیلات دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ابھی اس پر کام ہو رہا ہے۔

افسر کے مطابق کچھ دیگر طریقوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ "یہی وہ مقام اور صورت حال ہے جہاں تخلیقی صلاحیت اور جدت کام آتی ہے۔"

ایک جھڑپ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بیت حنون شہر میں، جہاں ان کی افواج کارروائی کر رہی تھیں، کچھ مسلح افراد نے سرنگوں کے روشن دانوں سے اسرائیلی فوج پر حملہ کیااور جوابی کارروائی میں وہ مارے گئے تھے۔

جنگجوؤں سے زیر زمین لڑائی کی پالیسی

سرنگوں اور زیر زمین تنصیبات میں لڑائی کے سلسلے میں اسرائیلی پالیسی پر انہوں نے کہا کہ فلسطینی جنگجوؤں کے کے لیے فوجیوں کو ان کے پیچھے بھیجنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے کیونکہ جنگجو تنگ، تاریک، کم ہوا دار اور ٹوٹ جانے والے راستوں سے واقف ہیں اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اسرائیلی فوجی افسر نے کہا، "ہم وہاں نہیں جانا چاہتے۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے وہاں مختلف جگہوں پر ہمارے لیے بہت سے دیسی ساخت کے دھماکہ خیز بم رکھے ہوئے ہیں۔"

گزشتہ ہفتے اسرائیلی اسپیشل فورسز کے چارفوجی اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ایک سرنگ میں جانےمیں جانے والے راستے پر چھپا کر رکھا گیا بم ان کی آمد پر پھٹ گیا۔

سرنگوں کا جال

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس حملوں، اسمگلنگ اور ذخیرہ کرنے کے لیے سرنگوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو کئی سو کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ روشن دان اور کھڑکی نما درجنوں دروازے سرنگوں کی طرف لے جا تے ہیں جن کی گہرائی 65 سے 260 فٹ کے درمیان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سرنگ کے دروازے کو تباہ کرنا نسبتاً آسان اور تیز ہے اور فوجیوں کی کوئی بھی پلوٹون ( چھوٹا گروپ) یہ کام باآسانی کر سکتی ہے۔

اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اب تک سرنگوں میں داخلے کے 130 دروازے تباہ کر چکی ہے، لیکن فوج نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ اس نے کتنی سرنگیں تباہ کیں ہیں۔

سرنگوں سے نمٹنا اور بعد از کارروائی تجزیہ کرنا مشکل ہے

فوجی عہدے دار کا کہنا تھا کہ سرنگوں سے نمٹنا مشکل کام ہے کیونکہ چند سو میٹر سرنگ کو تباہ کرنے کے لیے کئی ٹن دھماکہ خیز مواد درکار ہوتا ہے جسے ٹرک کے ذریعے لانا پڑتا ہے۔

تاہم انہوں نے اس کے بارے میں تکنیکی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

فوجی عہدے دار کا کہنا تھا کہ سرنگوں کے چھوٹے داخلی دروازے کو تباہ کرنے کے بعد یہ تجزیہ مشکل ہےکہ اس سے سرنگ میں کتنا نقصان ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ بیت حنون کے آپریشن زون میں تقریباً نصف شافٹ(سرنگوں کےداخلی دروازے ) تباہ ہو چکے ہیں، لیکن اس نے تسلیم کیا کہ انہیں دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔

حماس کا موقف

عسکریت پسند تنظیم حماس نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ وہ سرنگوں کے لیے اسپتالوں کا استعمال کرتے ہیں۔

حماس نے اسرائیل کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفاء کے نیچے اس کا ایک زیر زمین کمانڈ سینٹر ہے ۔

اسرائیلی فورسز بدھ کو اس اسپتال میں داخل ہوئی تھیں۔

یرغمالوں کو بچانے کی کوششیں

تل ابیب نے کہا ہے کہ حماس کے جنگجو سات اکتوبر کو ہونے والے حملے میں تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔

حماس نے ان میں سے اب تک چند افراد کو رہا کیا ہے۔ رہائی پانے والوں میں سے ایک نے بتایا کہ کم از کم دو درجن افراد کو ایک سرنگ میں رکھا گیا ہے۔

اسرائیلی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ یہ خیال رکھا جا رہا ہے کہ کسی ایسی سرنگ کو خطرے میں نہ ڈالا جائے جن میں یرغمال موجود ہو سکتے ہیں۔

فوجی عہدے دار نے کہا کہ ہمیں بعض اوقات ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اس ہدف میں یرغمالی بھی ہو سکتے ہیں۔ پھر ہم منظوری کے بغیر اس پر حملہ نہیں کرتے۔

زیر زمین نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں طویل وقت لگ سکتا ہے

فوجی افسر نے کہا کہ غزہ کے پورے زیر زمین نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "میرے خیال میں یہ نیویارک سٹی سب وے سے بھی زیادہ پیچیدہ نظام ہے۔"

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ دھماکہ خیز جل کو ڈیٹونیٹر سے اڑا دینے کے بعد اس کا دھواں کس حد تک نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے اور انسانوں پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG