اسرائیل نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں جنوبی افریقہ کی جانب سے ان الزامات کو جھوٹا اورانتہائی مسخ شدہ قرار دے کر مسترد کر دیا کہ غزہ میں اس کی فوجی کارروائی فلسطینیوں کے خلاف ریاست کی زیر قیادت نسل کشی کی ایک مہم ہے۔
وکیل میلکم شاو نے یہ جواز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا دفاع کیا کہ وہ اپنے دفاع کے لیے کارروائی کررہا ہے اور وہ فلسطینی آبادی سے نہیں، حماس سے لڑ رہا ہے اور انہوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف سےاپیل کی کہ وہ اس کیس کو بے بنیاد قرار دے کر خارج کر دے اور اسے نسل کشی نہ قرار دے کر مسترد کر دے ۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے لیگل ایڈوائزر ، تال بیکر نے عدالت کو بتایا کہ ، اسرائیلی اور فلسطینی شہریوں ، دونوں کی ہولناک مشکلات حماس کی اسٹریٹیجی کا پہلا اور سب سے اہم نتیجہ ہیں۔
بیکر نے کہا کہ ،” اگر نسل کشی کی کچھ کارروائیاں ہوئی ہیں تو وہ اسرائیل کے خلاف کی گئی ہیں ، حماس اسرائیل کے خلا ف نسل کشی چاہتا ہے ۔”
اسرائیل کی دفاع سے متعلق ٹیم نے دلیل دی کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو وہاں سےانخلا پر زور دینے کی کوششوں سمیت، انسانی مصائب کو دور کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا ۔
جنوبی افریقہ نے جمعرات کو عدالت میں کہا کہ اسرائیل کی اس فضائی اور زمینی فوجی کارروائی کا مقصد غزہ کی آبادی کوتباہ کرنا تھا جس میں محصور علاقے کا بیشتر حصہ کھنڈر بن گیا اور غزہ کے صحت کے عہدے داروں کے مطابق لگ بھگ 24 ہزار لوگ ہلاک ہوئے ۔
اسرائیل نے ان الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتا ہے اور اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
فلسطینیوں کے حامیوں نے اپنے پرچموں کے ساتھ دی ہیگ کے پورے شہر میں مارچ کی اور عدالتی کارروائیوں کو پیس پیلس کے سامنےایک بڑے اسکرین پر دیکھا۔ جب اسرائیلی وفد نے عدالت میں بات کی تو انہوں نے جھوٹا ، جھوٹا کے نعرے لگائے۔
اسرائیل کے حامی حماس کے پاس قید یرغمالوں کے خاندانوں کے افراد کے ساتھ ایک الگ اجتماع میں شامل ہوئے۔
توقع ہے کہ عدالت اس ماہ بعد میں ممکنہ ہنگامی اقدامات کے بارے میں فیصلہ دے گی جن میں جنوبی افریقہ کی جانب سے اس درخواست کا فیصلہ شامل ہو سکتا ہے کہ عدالت اسرائیل کو اپنی کارروائیاں روکنے کا حکم دے ۔
وہ اس وقت قتل عام کے الزامات پر فیصلہ نہیں دے گی ۔ اس معاملے میں عدالتی کارروائیوں میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
سن 1948 کا جینو سائڈ(نسل کشی ) کنونشن ،جسے نازی ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے قتل عام کے حوالے سے نافذ کیا گیا تھا، نسل کشی کو کسی پوری قوم یا کسی نسلی یا مذہبی گروپ کی مکمل یا جزوی تباہی کے مقصد سے مرتکب کی گئی کارروائیاں قرار دیتا ہے۔
انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس یا آئی سی جے کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلا ف اپیل نہیں ہو سکتی ، لیکن عدالت کے پاس ان پر عمل درآمد کرانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد غزہ کی جنگ شروع اس وقت شروع کی تھی جب حماس نے جس نے اسرائیل کی تباہی کی قسم کھائی ہے ، اپنے عسکریت پسندوں کے ذریعے سرحد پارحملہ کیا ، جس میں اسرائیل نے کہا ہے کہ1140 لوگ ہلاک ہوئے اور 240 کو یرغمال بنایا گیا۔
ایک فلسطینی خاتون نین حیجوی سے ، جو حال ہی میں نیدرلینڈز آئی ہیں، جب پوچھا گیا کہ ان کا اسرائیل کےان دلائل کے بارے میں کیا خیال ہے کہ غزہ کی مہم سیلف ڈیفنس کا معاملہ ہے ، تو ان کا جواب تھا، ایک قابض جو 75 سال سے لوگوں پر ظلم کررہا ہے کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ سیلف ڈیفنس ہے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ عسکریت پسند گروپ حماس کے لیے ایک ماؤتھ پیس کے طور پر کام کرر ہا ہے ، جسے امریکہ ، یورپی یونین ، برطانیہ اور متعدد دوسرے ملک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں ۔
اسرائیلی فورسز نے جب سے اپنی کارروائی شرو ع کی ہے غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق 24 ہزار لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں بیشتر عورتیں اور بچے ہیں۔لگ بھگ 23 لاکھ لوگوں کو کم از کم اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی ہے جس کے نتیجے میں وہاں ایک بحران پیدا ہو گیا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم