پاکستان میں وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت تحریک انصاف کی حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ بنڈل اور بڈو جزائر صوبہ سندھ کی ملکیت ہیں۔
اس بات کا اظہار وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ میں اُس دو رکنی بینچ کے سامنے کیا جو ان جزائر کی ملکیت اور وہاں وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
بیرسٹر خالد جاوید خان نے واضح کیا کہ سندھ حکومت کے تعاون اور اعتماد میں لیے بغیر ان جزائر میں کسی قسم کا کوئی ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان کسی بھی تنازع کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سماعت سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس معاملے پر پہلے ہی جاری کیے گئے آرڈیننس کے مندرجات پر بات چیت کر رہی ہیں تاکہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکے اور اس بارے میں مرکزی حکومت کی کوشش ہے کہ صوبائی حکومت کے تمام خدشات دور کیے جائیں گے۔
وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ آرڈیننس کے اجرا کا مقصد جزائر پر حق ملکیت جتانا نہیں بلکہ انہیں ترقی دینا ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت سندھ حکومت کی خواہش کے تحت اس سے متعلق آرڈیننس میں بھی ترامیم کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالت کے بجائے ملکیت کا تنازع بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ یہاں ترقیاتی کاموں کے دوران جزائر کے ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے وہاں پائے جانے والے تیمر کے جنگلات اور دیگر نباتات اور آبی حیات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
ماہرین ان تیمر کے جنگلات کو کراچی کی دفاعی لائن کے طور پر تعبیر کرتے ہیں جو سمندری طوفان، سونامی یا اس قسم کی دیگر آفات میں شہر کی ساحلی پٹی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
یہ تیمر کے جنگلات صوبہ سندھ کے ساحلی علاقوں اور اس کی حدود میں واقع کئی جزائر پر ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی مسائل اور دیگر وجوہات کے باعث ان کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
ماحولیات کی بقا کے لیے سرگرمِ عمل کئی تنظیموں نے جزائر پر آباد کاری سے ان تیمر کے جنگلات اور یہاں پائی جانے والی آبی حیات کو سنگین خطرات کے خدشات کا اظہار کیا ہے جس سے پہلے سے متاثرہ ساحلی پٹی اور سمندر متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکیں گے۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتے منظور کی گئی قرارداد میں صدر مملکت کی جانب سے جزائر سے متعلق جاری کیے گئے آرڈیننس پاکستان آئی لینڈز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو آئین کے برخلاف قرار دیا ہے۔ اسمبلی کا کہنا ہے کہ آرڈیننس کا اجرا غیر قانونی طور پر کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے بنڈل اور بڈو جزائر کے ملکیتی حقوق وفاقی حکومت کے سپرد کیے گئے جو مکمل طور پر سندھ کے ہیں۔
قرارداد کے مطابق اس آرڈیننس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 97، 172 اور 239 کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ بنڈل اور بڈو جزائر سمیت تمام جزائر صوبہ سندھ کی ملکیت قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان جزائر کو غیر قانونی طور پر وفاقی حکومت نے اپنانے کی کوشش کی جو صوبائی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔
قرارداد کے ذریعے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سندھ کی سرحدوں اور املاک کا تحفظ یقینی بنائے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ صدر مملکت کو آرڈیننس واپس لینے کے لیے ایڈوائس جاری کرے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے مطابق اس بارے میں وفاقی حکومت کا بیانیہ غلط معلومات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کو قانون کے تحت عوامی مفادات میں جزائر استعمال کرنے کی اجازت ضرور دی لیکن اس کے ذریعے جزائر کے ملکیتی اختیارات نہیں دیے گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ قانون کے تحت ساحل سے 12 ناٹیکل میل تک سمندر کے اندر تک کے تمام جزائر صوبہ سندھ یا بلوچستان حکومت کی ملکیت ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے انہیں وفاقی حصہ ظاہر کرنے کے عمل کے خلاف پیپلزپارٹی ہر قانونی آپشنز استعمال کرے گی اور وفاقی حکومت کو یہ آرڈیننس واپس لینے پر مجبور کیا جائے گا۔
اُنہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے اس بارے میں مذمتی قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جمع کرا دی ہے جہاں وہ اس معاملے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائی گی۔
کئی سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے اجرا کے بعد اس پر صوبائی حکومت کی جانب سے شدید ردِعمل اور سول سوسائٹی کی جانب سے مزاحمت کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت نے جزائر کی زمین پر صوبے کی ملکیت کا حق تسلیم کرکے لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول امید پیدا ہو گئی ہے کہ معاملہ جلد حل ہو سکے گا اور برسوں سے التوا کا شکار اس منصوبے پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا۔
کراچی سے تقریباً آٹھ کلو میٹر دور ان جزائر پر جن کا مجموعی رقبہ 14 ہزار ایکڑ پر محیط ہے پر نئے شہر آباد کرنے سے متعلق وفاقی حکومت اور وزرا کا یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ وہ اس منصوبے کے ذریعے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم صوبائی حکومت کے بقول وہ ان جزائر کو ترقی دینے کے خلاف نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بناننا چاہتی ہے کہ زمین کی اونر شپ یعنی اس پر اس کا حق ملکیت تسلیم کیا جائے جس سے صوبائی حکومت دست بردار نہیں ہوگی۔
لیکن دوسری جانب سندھ کے مقامی ماہی گیروں کی نمائندہ تنظیمیں مستقبل میں ان جزائر کے اطراف میں ماہی گیری کی صنعت اور ماحولیاتی بقا کو خطرہ قرار دیتے ہوئے ان جزائر میں نئے شہر آباد کرنے کی کھل کر مخالفت کرتی آئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ترقی کے نام پر ماہی گیروں کو بے دخل کیا جا سکتا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ یہاں اطراف میں انہیں مچھلیوں کے شکار کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔
ان جزائر پر تعمیرات کی سب سے پہلے کوشش 2005 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی تاہم اس میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی، اسی طرح 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بھی ان جزائر میں آبادکاری کے منصوبے کی بازگشت سنائی دی تھی۔
لیکن سول سوسائٹی کی جانب سے مزاحمت اور پھر معاشی حالات کے باعث اس پر عملدرآمد ممکن نہ ہو سکا۔
آئی لینڈ آرڈیننس میں کیا ہے؟
صدر مملکت کی جانب سے یکم ستمبر کو جاری کیے گئے 'پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس' کے تحت سندھ اور بلوچستان سے منسلک سمندر ی حدود میں تمام جزائر وفاق کی ملکیت تصور کیے جائیں گے۔
آرڈیننس کے مطابق پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کا صدر دفتر کراچی جب کہ اتھارٹی کے معاملات چلانے کے لیے 11 ممبران پر مشتمل بورڈ ہو گا۔
بورڈ کے چیئرمین کا انتخاب پانچ سال کے لیے کیا جائے گا جب کہ اتھارٹی کے سربراہ وزیر اعظم ہوں گے۔ اس آرڈیننس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ آئی لینڈ اتھارٹی جزائر کی زمین کی منتقلی، فروخت، استعمال کے لیے طریقہ طے کرنے اور اس بارے میں وفاقی حکومت کے اصولوں کے تحت ٹیکس وصولی کے اختیارات کی حامل ہو گی۔