رسائی کے لنکس

کراچی کے تین بڑے اسپتالوں کی ملکیت پر وفاق اور سندھ دوبارہ آمنے سامنے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے تین بڑے اور اہم سرکاری اسپتالوں کی ملکیت اور نظامت کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومت ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔

وزارت قومی صحت خدمات، قواعد و رابطہ کاری نے اسپتالوں کی حوالگی کے لیے اداروں کے سربراہان کو مراسلہ جاری کر دیا ہے جس سے اس اہم عوامی مسئلے نے دوبارہ سر اُٹھالیا ہے۔

کراچی کے قومی ادارہ برائے امراضِ قلب، قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کا انتظام اس وقت سندھ حکومت کے پاس ہے۔

مذکورہ اسپتالوں سے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں تینوں اسپتالوں کو وفاق کے حوالے کر دیا تھا۔ تاہم جولائی 2019 میں وفاق نے تینوں اسپتالوں کا انتظام سنبھالنے سے معذرت کر لی تھی اور اب اچانک اسپتالوں کی حوالگی کا فوری مطالبہ کر دیا ہے۔

مذکورہ اسپتالوں کی حوالگی سے متعلق نوٹی فکیشن کے اجرا پر وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیرِ قانون مرتضیٰ وہاب یہ مراسلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور کرونا وبا کے دوران وفاق کی یہ مہم جوئی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے سوال اُٹھایا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ رقم ملنے پر وفاق کے پاس فنڈز نہ ہونے کا شکوہ کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وفاق اگر ان تینوں اسپتالوں کو فنڈز جاری نہ کر سکا تو پاکستان بھر سے آنے والے مریضوں کا کیا ہو گا؟

بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا مزید کہنا تھا کہ وفاق اسپتالوں کی منتقلی کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے وضع کیے گئے طریقہ کار پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

سندھ حکومت نے ان دس برسوں میں کئی ترقیاتی اور توسیعی کام کیے ہیں اور سندھ حکومت کو یہ اخراجات واپس ملنے چاہییں۔

سندھ کی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بتایا کہ تینوں اسپتالوں میں ملک بھر سے مریض آتے ہیں، صرف او پی ڈیز میں ہی روزانہ چار ہزار سے زائد مریضوں کو دیکھا جاتا ہے۔ ایمرجنسی، ایڈمیشن اور سرجری علیحدہ ہیں جس کے لیے سندھ حکومت 12 ارب روپے خرچ کرتی ہے۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے وفاق کے اس عمل کو جلد بازی میں کیا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسپتالوں کی حوالگی ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے کافی وقت درکار ہو گا۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ

قومی ادارہ برائے امراض اطفال (این آئی سی ایچ) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ اسپتال میں ایک ہی چھت کے نیچے بچوں کے تمام امراض کے علاج اور ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔

ان کے بقول روزانہ 1500 سے زائد مریضوں کو او پی ڈی میں دیکھا جاتا ہے جب کہ سالانہ 32 ہزار مریضوں کا ایڈمیشن ہوتا ہے۔ 500 سے زائد سرجریز کی جاتی ہیں اور دوائیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

ڈائریکٹر این آئی سی ایچ جمال رضا کے مطابق اس وقت اسپتال میں 382 پوسٹیں خالی ہیں لیکن اسپتال کے مستقبل سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے نئی بھرتیاں نہیں کر سکے ہیں۔

اسپتالوں کی سندھ حکومت سے وفاق کو منتقلی کے معاملے پر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) کے سربراہ پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ اسپتال اور اس سے ملحقہ سینٹرز میں گزشتہ برس چار لاکھ مریض او پی ڈی میں آئے اور 37 ہزار مریضوں کو اسپتال میں داخل کیا گی۔

ان کے بقول این آئی سی وی ڈی ایشیا کا سب سے بڑا دل کا مفت اسپتال بن کر ابھرا ہے جہاں اندرون ملک سے ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک سے بھی مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔

پروفیسر ندیم قمر نے مزید بتایا کہ اسپتال میں چار ہزار سے زائد ملازمین ہیں جب کہ سندھ بھر میں 10 سٹیلائٹ سینٹر اور 16 چیسٹ پین یونٹس قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسپتال میں تبدیلیٔ دل کے آپریشن کا بھی آغاز کیا جا چکا ہے۔

کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسپتال کی منتقلی سے متعلق جو بھی فیصلہ ہو، مریضوں کے علاج معالجے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی اور احساس پروگرام کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق کے اسپتالوں کی صوبوں کو منتقلی اور اس میں درپیش مسائل اور نقائص پر خاصا کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک ریسرچ پیپر بھی موجود ہے۔

اُن کے بقول صحت صوبائی معاملہ قرار دینے کے باوجود وفاق کا کردار ختم نہیں ہوتا۔ قومی صحت پالیسی اور صوبوں کی کارکردگی جانچنے اور کسی قسم کی کمزوری یا کوتاہی دیکھنے پر وفاق اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اور اب تو سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ وفاق کے حق میں دیا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی)
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی)

وفاقی حکومت نے گزشتہ ماہ پیش کیے گئے بجٹ میں تینوں اسپتالوں کے لیے رقم مختص کر کے عندیہ دیا تھا کہ اب یہ اسپتال زیادہ دیر تک حکومتِ سندھ کے زیرِ انتظام نہیں رہیں گے۔

وفاق نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کے لیے نو بلین سے زائد، جناح اسپتال کے لیے پونے چار بلین اور امراض اطفال اسپتال کے لیے ایک بلین کی خطیر رقم رکھی تھی۔

وفاقی بجٹ کے فوری بعد وزارت قومی صحت خدمات، قواعد و رابطہ کاری نے تینوں اسپتالوں کے سربراہان کے نام مراسلہ جاری کر کے اسپتالوں کی وفاق کو حوالگی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اور حکام کو نئی بھرتیاں کرنے سے منع کیا ہے جب کہ ملازمین کی فہرست، اخراجات اور اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔

وفاق کی جانب سے بجٹ میں اسپتالوں کے لیے رقم رکھنے کے باوجود سندھ حکومت نے بھی بجٹ میں تینوں اسپتالوں کے رقم مختص کی ہے۔

سندھ حکومت نے بھی بجٹ میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کے لیے 5 بلین رکھے ہیں۔

سندھ اور وفاق نے بجٹ میں مذکورہ اسپتالوں کے لیے رقم مختص کر کے ایک مرتبہ پھر اسپتالوں کے انتظامی اختیار کے تنازع کو جنم دیا ہے۔

قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

وفاق اور صوبے کے درمیان اسپتالوں کی منتقلی پر قانونی جنگ اور آئینی باریکیوں کے حوالے سے سینئر وکیل عبدالقادر مندوخیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد وفاق اسپتال واپس لے سکتا ہے تاہم جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کی غلط تشریح کی گئی تو اب وقت آگیا ہے کہ اس اہم مسئلے پر غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

ایڈووکیٹ مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ اسپتالوں کی منتقلی سپریم کورٹ کے طے شدہ طریقۂ کار کے تحت ہونا بے جس کے لیے کسی نہ کسی موڑ پر وفاق اور سندھ کو اختلافات بھلا کر ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا تاکہ یہ پیچیدہ قانونی معاملہ خوش اسلوبی اور ہم آہنگی کے ساتھ حل ہو جائے۔

کراچی کے تینوں اسپتال اتنے اہم کیوں ہیں؟

یہ تینوں اسپتال محض طبی مراکز ہی نہیں بلکہ یہ عمارتیں تاریخی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ بالخصوص جناح اسپتال جس کے بطن سے قومی ادارہ برائے امراض اطفال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب نے جنم لیا۔

جناح اسپتال 1930 میں برطانوی آرمی کا اسپتال تھا جسے 'برٹش جنرل اسپتال' کا نام دیا گیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسپتال کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیے تھے اور اسپتال کا نام تبدیل کر کے جناح سینٹرل اسپتال رکھا گیا۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی)
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی)

پچاس کی دہائی میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے الحاق کے بعد اسپتال کو تحقیق اور درسی درجہ بھی ملا۔ بعد ازاں 1963 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے الحاق ختم کر کے جناح اسپتال کو ملک کا پہلا پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر بنا دیا گیا جو انڈیانا یونیورسٹی امریکہ کے تعاون سے کئی شعبوں میں فیلوشپ کرواتا تھا جن میں امراض اطفال کا شعبہ بھی شامل ہے۔

انیس سو ستر میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے پیڈز وارڈ کو نئی عمارت میں منتقل کیا گیا اور یوں جناح اسپتال کے بطن سے ایک نئے اسپتال کا جنم ہوا جو آج 400 بستروں پر مشتمل قومی ادارہ برائے امراض اطفال کا اسپتال ہے۔

پچاس کی دہائی میں ہی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے وارڈ 10 میں امراض قلب کا سینٹر تھا۔ 1971 میں اس سینٹر کو دوسری عمارت میں امریکہ اور جاپان کے مالی تعاون سے ایک این جی او کی طرح چلایا گیا تاہم 1979 میں اسپتال کو قومیا لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG