محمد ثاقب
جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کراچی کے جناح اسپتال کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے اسپتال میں سہولیات کی بہتری کے لئے عملے کو ہدایات بھی کیں۔ جسٹس ثاتب نثار نے اسپتال میں موجود سہولیات سے متعلق تحریری جواب بھی طلب کرلیا۔ دوسری جانب عدالت نے دیگر سرکاری اسپتالوں اور میڈیکل کالجز کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پا کستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی عدم فراہمی اور ابتر صورت حال پر از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔جناح اسپتال کی ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی اور سیکرٹری صحت سندھ فضل اللہ پیچوہو عدالت میں پیش ہوئے۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جناح اسپتال کی میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر سیمی جمالی سے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی اسپتال ہے جہاں جیل سے آئے ہوئے خاص ملزمان کو رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹرسیمی جمالی نے جواب دیا کہ جی ہاں یہ وہی اسپتال ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں پھر اسپتال کے حوالے سے اتنی بری رپورٹس کیوں ہیں۔سیمی جمالی نے موقف پیش کیا کہ جناح اسپتال کا معاملہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے عدالت میں زیرِالتوا رہا۔ ہم نےاسپتال کی وفاق سے صوبے کو منتقلی چیلنج کررکھی ہے۔ معاملہ زیرِسماعت ہونے کے باعث کوئی نئی بھرتیاں نہیں ہوپا رہیں۔
عدالت نے اسپتال کی فائل فوری طور پر طلب کرتے ہوئے سیمی جمالی سے استفسار کیا کہ اسٹاف کے علاوہ دیگر آلات اور مشینیں کیوں نہیں۔ڈاکٹر سیمی جمالی نے جواب دیا کہ یہ بہت بڑا اسپتال ہے جہاں روزانہ ہزاروں مریض آتے ہیں۔ ایک سال کے دوران 4 لاکھ 50 ہزار مریض صرف ایمرجنسی میں آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہرٹیسٹ جناح اسپتال میں دستیاب ہے یا کوئی ٹیسٹ باہر بھی ہوتے ہیں؟ آپ حلف نامہ لکھ کر دیں کہ اسپتال میں ساری سہولتیں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے اسپتالوں کی ابترصورت حال پر صوبائی سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو پر برمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسپتالوں کی جو رپورٹس آرہی ہیں وہ بہتر نہیں۔ عدالت کے استفسار پرسیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ اسپتالوں کو فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں۔
تین رکنی بینچ نے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی کارکردگی کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کالج انتظامیہ کو نوٹس جاری کردئیے ہیں۔