ایک ایسے وقت میں جب کہ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گرد مشرق وسطی میں اپنے زیر قبضہ علاقوں سے محروم ہو رہے ہیں، ایسی علامتیں موجود ہیں کہ یہ گروپ جنوبی ایشیا میں موجود مقامی عسکریت پسندوں سے اپنے تعاو ن میں اضافہ کررہا ہے۔
تنازعات کے تجزے سے متعلق ایک تھنک ٹینک IPAC کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ گروپ کے حامی اب جنوبی ایشیا میں اپنے رابطے بڑھا رہے ہیں اور بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس نئے خطرے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
IPAC کی ڈائریکٹر سنڈی جونز کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سال کے عرصے میں اس گروپ نے خطے میں موجود انتہاپسندوں کے ساتھ تعاون کی نئی را ہیں پیدا کی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے چار انتہا پسند گروپ جنوبی فلپائن کے علاقےمنڈاناؤ پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور انہیں، جنگجو، تربیت کار یا مختلف اوقات میں انڈونیشیا یا ملائیشیا سے رقوم فراہم کررہے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں وہاں پناہ، تربیت کے لیے جگہیں اور جنگی مہارتیں یا ہتھیار مل رہے ہیں۔
فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹرٹے نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سےشورش زدہ علاقے میں طویل عرصے سے جاری تشدد کے خاتمے کے لیے وہاں کے گروپوں کے ساتھ بات چیت شروع کی ہےاور انہیں مختلف حل پیش کیے ہیں۔
ملائیشیا میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز کی ڈائریکٹر علینا نور کا کہنا ہے کہ فلپائن کا جنوبی حصہ انتہا پسندی پر مبنی کارروائیوں کا ایک علاقائی مرکز بن جائے گا۔
لیکن IPAC کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی گروپوں کے ساتھ اتحاد کی اسلامک اسٹیٹ کی مہم عارضی نوعیت کی ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں منڈاناؤ میں ایسے سخت گیر جہادی پیدا ہوسکتے ہیں جو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں زیادہ نظریاتی ہوں اورخطے میں اسلامک اسٹیٹ کے ساتھیوں کی مدد کے حوالے سے زیادہ ہم خیال ہوں۔
متحدہ عرب امارات میں قائم مشرق قریب اور خلیج میں فوجی تجزے سے متعلق ادارے کے سربراہ ریاض خواجی کہتے ہیں کہ فرقہ واریت کی درآمد نے مشرق وسطی میں آبادیوں کے گروپوں کے درمیان اسلام کے اندر تقسیم کی لکیر کو گہرا کر دیا ہے جس کی بھار ی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو انفرادی سطح پر بنیاد پرست بنانے میں کردار ادا کیا ہےاور وہ اپنے طور پر حملوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ آسٹریلیا ایسے کئی حملوں اور خطرات کا سامنا کرچکا ہے۔