رسائی کے لنکس

اسلام آباد ہائی کورٹ: الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا آرڈیننس معطل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے دو نئے ارکان کی تعیناتی کا صدارتی حکم نامہ معطل کر دیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ایسے فیصلے پارلیمان میں منتخب نمائندوں کو خود کرنے چاہئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کو الیکشن کمیشن کے دو نئے ارکان کی تعیناتی کے خلاف وکیل جہانگیر خان جدون کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران عدالت نے صدارتی نوٹی فکیشن کو معطل کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسے فیصلے منتخب نمائندوں کو پارلیمنٹ میں خود کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی توقیر ہمارے لیے مقدم ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی حل کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ پر مکمل اعتماد ہے۔ ممبران کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن آئندہ سماعت تک معطل رہے گا۔

ان کے بقول جو چیز پارلیمنٹ کی ہے، وہ پارلیمان میں ہی طے ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم دیا کہ ارکان کی تعیناتی کا معاملہ سات دسمبر سے پہلے حل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس وقت تقریباً غیر فعال ہے اور چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے۔ لہٰذا آپ اس معاملے کو جلد حل کرلیں۔

سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ انہیں چار ہفتے کا وقت مزید دے دیا جائے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے پر تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، لیکن حالات خراب ہونے کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو سکی۔

چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمٰن کے ممکنہ دھرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جس معاملے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، اسے بھی پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔

عدالت نے کیس کی سماعت پانچ دسمبر تک ملتوی کر دی۔

الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کیوں نہیں ہو رہی؟

الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی مدتِ ملازمت مکمل ہوئے ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن ان دو ممبران کی تقرری کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔

آئین کے مطابق اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر اور وزیرِ اعظم کو باہمی مشاورت کے ذریعے دو افراد کا تقرر کرنا ہوتا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف میں مشاورت نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا گیا تھا لیکن وہاں بھی یہ حل نہ ہو سکا۔

اگر پارلیمانی کمیٹی میں بھی اس معاملے کا حل نہ نکل سکے تو پھر کیا ہوگا؟ اس حوالے سے آئین میں خاموشی ہے۔ لہٰذا اسی صورتِ حال کا شکار ہونے پر حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دو ممبران کی تقرری کر دی تھی۔

اس آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کا تنازع پارلیمان میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 14 اکتوبر کو اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ اتنا چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں کرسکتی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو مشاورت سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ کیا پارلیمنٹ اتنا چھوٹا معاملہ بھی حل نہیں کرسکتی؟

انہوں نے مزید کہا تھا کہ آئینی اداروں کو غیر فعال نہیں ہونا چاہیے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کوشش کریں کہ الیکشن کمیشن غیر فعال نہ ہو۔

XS
SM
MD
LG