رسائی کے لنکس

لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو شکست کیسے ہوئی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا گڑھ کہلائے جانے والے شہر لاڑکانہ میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

صوبائی اسمبلی کی نشست پر جمعرات کو پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے معظم خان عباسی سے شکست کھا گئے۔

اس سے قبل عام انتخابات میں بھی معظم خان عباسی نے پیپلز پارٹی کی امیدوار ندا کھوڑو کو پارٹی کے اس مضبوط قلعے میں شکست دی تھی۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں معظم علی خان عباسی نے 31 ہزار 535 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔

ان کے قریب ترین مد مقابل امیدوار جمیل احمد سومرو نے 26 ہزار 11 ووٹ حاصل کیے۔ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 39 فی صد سے زائد ریکارڈ کی گئی۔

پیپلزپارٹی کی شکست کی کیا وجوہات ہیں؟

پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنے گڑھ میں مسلسل دوسری بار شکست پر کئی تجزیہ کار بالکل بھی حیران نہیں ہوئے۔

صحافی مجاہد شاہ کے مطابق اس شکست کے کئی عوامل ہیں، جن میں سب سے اہم وہ پارٹی کی اقربا پروری پر مبنی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے عام انتخابات کی طرح اس بار بھی امیدوار کے چناو میں بڑی غلطی کی۔ عام انتخابات میں نثار کُھہڑو کی نا اہلی پر ان کی صاحبزادی ندا کُھہڑو کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا لیکن سیاست میں وہ نووارد تھیں اور ان کی سب سے بڑی قابلیت پارٹی کے صوبائی صدر کی بیٹی ہونا تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح ضمنی انتخاب میں بھی پارٹی نے جس شخصیت کو ٹکٹ دیا وہ بلاول بھٹو کے پرسنل سیکریٹری ہیں۔

مجاہد شاہ کے مطابق، پارٹی ورکرز میں جمیل سومرو کی شہرت بھی زیادہ اچھی نہیں اور بہت سے کارکنوں سمیت پارٹی کے رہنما بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ انہیں کارکنوں کے قریب آنے نہیں دیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں شکست کی ایک اور وجہ جمعیت علما اسلام ہے، جس کا لاڑکانہ شہر میں اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے اور ان کا ووٹ بینک بہرحال موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں جمعیت علما اسلام کے مولانا راشد سومرو بلاول بھٹو کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے جبکہ ضمنی انتخابات میں بھی جمعیت علمائے اسلام نے پیپلز پارٹی کے مخالف امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔

مجاہد شاہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ لاڑکانہ میں ایڈز کی وبا پھیلنے پر بھی شہری غصہ میں ہے اور گیارہ سال سے صوبے میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے۔

مقامی اخبار 'روزنامہ دنیا' سے منسلک لاڑکانہ کے صحافی طارق محمود درانی ان وجوہات میں اہم وجہ پیپلز پارٹی کا عوام سے رابطہ نہ رکھنا بھی قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما شہر میں شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ پارٹی کے صوبائی صدر نثار کُھہڑو اکثر کراچی میں رہتے ہیں، سہیل انور سیال اور طارق سیال بھی لاڑکانہ میں کم ہی وقت گزارتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی طرح یہاں سے منتخب رکن قومی اسمبلی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے حلقے کو بے حد کم وقت دیا ہے۔

ان کے مطابق، لاڑکانہ میں ترقیاتی کام تو ہوئے ہیں مگر وہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے دکھائی دیتے ہیں جن میں مبینہ کرپشن کی کہانیاں عام ہیں۔ لیکن اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

درانی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی اس وقت ہی بج چکی تھی جب گزشتہ عام انتخابات میں بلاول بھٹو کے مدمقابل امیدوار مولانا راشد سومرو نے 52 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن اس خطرے کو پارٹی نے بھانپنے کی کوشش نہیں کی۔

حالیہ ضمنی انتخاب کے لیے بھی جب پارٹی چئیرمین ستمبر کے آخر میں لاڑکانہ آئے تو پارٹی کارکنوں نے ان کے سامنے ضلعی اور بلدیاتی قیادت کے خلاف شکایتوں کے انبار رکھ دیے تھے۔

بلاول بھٹو نے پارٹی کی مقامی قیادت پر شدید ناراضگی کا بھی اظہار کیا تھا اور اب اسی ناراضگی کا اظہار ووٹرز کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے۔

یاد رہے کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پہلے سے زائد نشستیں تو حاصل کی تھیں لیکن لاڑکانہ میں اس نشست اور کراچی کے علاقے لیاری میں اپنے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

معظم عباسی کون ہیں؟

معظم عباسی، پارلیمانی سیاست میں تو نوارد ہیں لیکن ان کا تعلق اس سیاسی خاندان سے ہے جو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریبی رہے ہیں۔

معظم عباسی کی دادی آپا اشرف عباسی مغربی پاکستان اسمبلی کی رکن تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر مغربی پاکستان اسمبلی سے استعفیٰ دیا جبکہ وہ پیپلز پارٹی کی بانی ارکان میں شامل تھیں۔

پھر 1970 کے عام انتخابات میں وہ مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کی انتہائی قریبی ساتھی سمجھی جاتی تھیں۔

ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں انہیں اور ان کے بیٹے منور علی عباسی کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔

بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی ختم کرکے اپنی سیاسی جدوجہد کا دوبارہ آغاز کیا تو معظم عباسی کے چچا صفدر عباسی کو اپنا پولیٹیکل سیکرٹری بنایا اور سینیٹر منتخب کرایا۔

صفدر عباسی کے بعد ان کی بیگم ناہید عباسی بھی بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری رہیں۔

آپا اشرف 1988 میں ایک بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر ڈپٹی اسپیکر بنیں جبکہ ان کے صاحبزادے حاجی منور علی عباسی 1988 میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔

منور علی عباسی نے 1993 کے عام انتخابات میں لاڑکانہ سے میر مرتضیٰ بھٹو سے شکست بھی کھائی۔ تاہم، وہ 2002 اور 2008 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی بنے۔

عباسی خاندان 2013 کے بعد سے ہی پیپلز پارٹی کی سیاست سے عملی طور پر دور ہونا شروع ہو گیا تھا اور صفدر عباسی نے اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کے نام سے جماعت بھی بنائی۔ تاہم، وہ اس میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔

حاجی منور علی عباسی کے بعد اب ان کے صاحبزادے معظم علی عباسی 2018 کے عام انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی بنے۔ لیکن اپنی زمین ظاہر نہ کرنے کے باعث انہیں نشست سے ہاتھ دھونا پڑے۔

ضمنی انتخاب میں وہ ایک بار پھر اپنی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کا رد عمل کیا ہے؟

رات گئے ضمنی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ان کے ووٹرز کو سیکورٹی پر تعینات رینجرز نے ہراساں کیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے نتائج مسترد کرتے ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے انتخابات کو سلیکشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا، اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باوجود ہمارے کارکنوں نے انتخابات میں کامیابی کے لیے جدوجہد کی۔

بلاول بھٹو کے مطابق، پیپلز پارٹی کے بعض ورکرز اور ان کے خاندانوں کو نیب نے نوٹسز بھیج کر قبل از انتخابات دھاندلی کی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ رینجرز اہلکاروں نے خواتین ووٹرز کو ہراساں کیا اور ان کے پولنگ ایجنٹس کو بھی پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال دیا۔ ہمارے امیدوار کو شکست دینے کے لئے پولنگ کا عمل جان بوجھ کر سست رکھا گیا۔

ان کے مطابق، بار بار کی شکایتوں کے باوجود الیکشن کمیشن نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG