پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے پر جہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان حکومت کی کارکردگی پر بحث جاری ہے، وہیں ایک سال کے دوران پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کی رفتار بھی موضوع بحث ہے۔
پارلیمنٹ کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو پہلے پارلیمانی سال کے دوران کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی جا سکی، جس کی وجہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
پارلیمانی معاملات اور قانون سازی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان عدم تعاون بھی دیکھا گیا، جب کہ اپوزیشن مناسب قانون سازی نہ ہونے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہی ہے۔
حکومت نے اگرچہ اپنی ایک سالہ کارگردگی کی رپورٹ جاری کی ہے۔ تاہم، بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے اس عرصے میں قانون سازی پر کوئی توجہ نہیں دی۔
برسرِ اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت کو قانون سازی میں کچھ مشکلات کا سامنا بھی رہا جن میں قابل ذکر پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل نہ ہونا تھی، جس کے باعث چار ماہ تک قانون سازی کا عمل تعطل کا شکار رہا۔
ایک سال کے دوران کون سے بل پاس ہوئے؟
پارلیمنٹ نے پہلے سال ایک آئینی ترمیم سمیت دس بل منظور کیے جن میں مالی سال 2019/20 کا بجٹ یعنی فنانس بل اور دو منی بجٹ یعنی ضمنی فنانس بل شامل ہیں۔
آزاد رکن محسن داوڑ کی جانب سے پیش کردہ چھبیسویں آئینی ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے سابقہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔
ان قبائلی اضلاع کی قومی اسمبلی کی نشستیں چھ سے بڑھا کر 12 جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 16 سے 24 کر دی گئی۔
گزشتہ پارلیمانی سال کے دوران سات بل منظور کیے گئے جن میں ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا بورڈ کا ترمیمی بل، فاٹا حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن میں انتخابات میں شکایات کے لیے ایک کی بجائے دو بینچز بنانے کا بل، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل، ویسٹ پاکستان پروہیبٹڈ آف اسموکنگ ان سینما اور ویسٹ پاکستان جووینائل اسموکنگ بل بھی منظور کرائے گئے۔
زیرِ التوا قانون سازی:
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ پارلیمانی سال کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت قانون سازی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کر سکی جس کے نتیجے میں درجنوں اہم آئینی بل التوا کا شکار رہے۔
زیر التوا بل جو قانون سازی کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ان میں معذور افراد کے حقوق کا بل، قومی اسمبلی میں اسلام آباد میں خواتین کی ایک نشست بڑھانے کا آئینی ترمیم کا بل، کنٹرول آف نارکوٹکس بل، اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل، فارن ایکسچینج ریگولیشن بل، زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری بل قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی بل، کوڈ آف سول پروسیجر ترمیمی بل، وسل بلور پروٹیکشن بل، خواتین کے جائیداد میں حقوق کا بل، لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکٹ بل، مسلم فیملی قانون کے دو ترمیمی بل بھی زیر التوا ہیں۔
نجی اراکین کی جانب سے پیش کیے گئے 49 بل ان کے علاوہ ہیں جن کی اسمبلی سے منظوری نہیں ہو سکی۔
شہباز شریف کی بطور چیئرمین پی اے سی تقرری کا معاملہ
برسر اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلا تنازع پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین کے انتخاب پر سامنے آیا۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے بیشتر وزرا کی رائے تھی کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد نہ کیا جائے چوں کہ وہ خود بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اس رائے کو ماننے کو تیار نہ ہوئیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اعلان کیا کہ جب تک شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین نامزد نہیں کیا جاتا تب تک پارٹی کسی بھی قائمہ کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان پی اے سی کی سربراہی کے تنازع کے باعث پارلیمانی کمیٹیوں کی تشکیل کا معاملہ تاخیر کا باعث بنا جو کہ پانچ ماہ کی تاخیر کے بعد دسمبر 2018 میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے پر حل ہوا۔
شہباز شریف اپنی گرفتاری کے دوران پروڈکشن آرڈر پر مسلسل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے طویل اجلاس منعقد کرتے رہے۔ تاہم، جیسے ہی ان کی ضمانت ہوئی تو پی اے سی کی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں۔
اب اُن کی جگہ مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رکن رانا تنویر کو چیئرمین پی اے سی نامزد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن، تاحال شہباز شریف اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوئے۔
اراکین اسمبلی کی گرفتاری اور پروڈکشن آرڈرز
حکومت کے پہلے سال کے دوران نصف درجن کے قریب ارکان اسمبلی کو مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔ جن میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ، سابق قبائلی اضلاع (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر شامل ہیں۔
اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے ان گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا مسلسل مطالبہ ہوتا رہا۔
شروع میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس معاملے کو التواء میں رکھا لیکن حزب اختلاف کے احتجاج کے باعث ایوان کی کارروائی معطل ہو جانے پر اسپیکر نے آصف زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔
تاہم، وزیرستان سے منتخب دونوں ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز بجٹ اور کشمیر پر بلائے گئے مشترکہ اجلاس کے لیے بھی جاری نہیں کیے گئے۔
قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس پر پابندی
اپوزیشن کے گرفتار ارکان اسمبلی کو قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جاتے رہے۔ گرفتار ارکان میں سے آصف زرداری کو چھ قائمہ کمیٹیوں کا رکن نامزد کیا گیا۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ان قائمہ کمیٹی کے سربراہوں نے اجلاسوں کا شیڈول اس طرح سے ترتیب دیا کہ آصف زرداری کو پروڈکشن آرڈر پر روزانہ اجلاس میں پیش کیا جا سکے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 29 جون کو بجٹ منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر میں اس بات کا اظہار کیا کہ گرفتار ارکان اسمبلی کے لیے پروڈکشن آرڈر کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
جولائی کے دوسرے ہفتے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے کفایت شعاری کے نام پر قائمہ کمیٹیوں کے عام دنوں کے دوران اجلاسوں پر پابندی عائد کر دی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی بھی تعطل کا شکار ہو گئی۔
وزیر اعظم کتنی بار پارلیمینٹ میں آئے؟
قومی اسمبلی کے نئے پارلیمانی سال کا آغاز 13 اگست 2018 کو ہوا جب عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے 325 اراکین نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھایا۔
15 اگست کے اجلاس میں اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب عمل میں لایا گیا جب کہ 17 اگست کو عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ اسمبلی کے وقفہ سوالات میں اراکین کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے خود جواب دیں گے۔
تاہم، پہلے پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کے اندر مجموعی طور پر وہ 18 اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ ان اجلاسوں میں اپنی رکنیت کا حلف اٹھانے سمیت اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب، وزیر اعظم کا انتخاب اور تین مشترکہ اجلاس شامل ہیں۔ ان خصوصی اجلاسوں کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان معمول کے اجلاسوں میں صرف 12 مرتبہ ہی ایوان میں آئے۔
وزیر اعظم عمران خان یہ شکوہ بھی کرتے رہے کہ اپوزیشن انہیں پارلیمینٹ میں بات نہیں کرنے دیتی اور شور شرابے کے باعث وہ قومی اسمبلی اجلاسوں میں شریک نہیں ہو سکے۔
پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس
موجودہ حکومت کے ایک سال کے دوران پارلیمینٹ کے تین مشترکہ اجلاس طلب کیے گئے، جن میں دو اجلاس بھارتی جارحیت کے خلاف اور ایک نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدارتی خطاب کے لیے طلب کیا گیا۔
17 ستمبر 2018 کو حسب روایت صدر عارف علوی نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے نئے پارلیمانی سال کا آغاز کیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان رواں سال فروری میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان کی اپوزیشن کے مطالبے پر 28 فروری کو مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔
دو روزہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے پالیسی بیان کے بعد پاک بھارت فضائی لڑائی کے دوران گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو خیر سگالی کے طور پر رہا کرنے کا اعلان کیا۔
بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے خلاف ایک بار پھر چھ اگست کو دو روزہ مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔
وزیر اعظم نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی صورت حال پر اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات سے ایوان کو آگاہ کیا اور بھارت کے متنازع علاقے کے حوالے سے یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے مشترکہ قرارداد بھی منظور کی گئی۔
اگرچہ پہلے پارلیمانی سال میں پی ٹی آئی کی حکومت، اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی کے باعث خاطر خواہ قانون سازی نہیں کر سکی۔ تاہم، قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال ہنگامہ خیز رہا اور کئی بار حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی نوک جھونک سے شروع ہونے والی بات نعرے بازی اور دھکم پیل تک پہنچتی رہی۔