رسائی کے لنکس

الیکشن کمیشن کے 2 نئے ارکان کا تنازع پارلیمنٹ کو بھیجنے کا حکم


اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ اتنا چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں کرسکتی۔ (فائل فوٹو)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ اتنا چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں کرسکتی۔ (فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الیکشن کمیشن کے دو نئے ارکان کی تعیناتی کے تنازع کو پارلیمنٹ بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا " پارلیمنٹ اتنا چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں کرسکتی۔"

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو الیکشن کمیشن کے دو نئے ارکان کی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

وفاق نے عدالت میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ اسی نوعیت کی ایک درخواست سپریم کورٹ میں بھی دائر ہے۔ لہذا سپریم کورٹ کے فیصلے تک ہائی کورٹ اس درخواست پر سماعت نہ کرے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، الیکشن کمیشن تقریباً غیر فعال ہوچکا ہے۔ کیا آپ الیکشن کمیشن کو مکمل غیر فعال کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا صرف سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التواء ہونے کی وجہ سے سماعت روکی جاسکتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو مشاورت سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، کیا پارلیمنٹ اتنا چھوٹا معاملہ بھی حل نہیں کرسکتی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کون کہے گا کہ پارلیمنٹ کے فورم پر یہ معاملہ حل نہیں ہونا چاہیے، ہمیں پارلیمنٹ پر اعتماد ہے وہ اس معاملے کو حل کرے گی۔ آئینی اداروں کو غیر فعال نہیں ہونا چاہیے اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کوشش کریں الیکشن کمیشن غیرفعال نہ ہو۔

ہائیکورٹ نے معاملے کو پارلیمنٹ کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ ڈیڈ لاک کو ختم کرائیں اور الیکشن کمیشن کو غیر فعال ہونے سے بچائیں۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپوزیشن کے وکیل جہانگیر جدون نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ دو ممبران کی تعیناتی میں آئین کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ آئین کے مطابق وزیرِ اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد 3 نام بھیجتا ہے۔

وکیل کے مؤقف پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اپوزیشن کو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہیے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے بجائے ان معاملات کوعدالت کیوں لایا جاتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس عدالت نے بھی پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے، کیا اپوزیشن نے تعیناتی کے خلاف کوئی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی؟

یاد رہے کہ حکومت نے اپوزیشن کی رضامندی کے بغیر الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان سے دو ارکان خالد محمود صدیقی اور منیر احمد کاکڑ کا تقرر کردیا تھا۔ تاہم اپوزیشن نے دونوں تقرریاں مسترد کردی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے بھی نئے ممبران کی تقرری کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نئے ارکان سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔

وزیر قانون فروغ نسیم کا مؤقف تھا کہ آئین کے مطابق وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت ضروری ہے اور اگر یہاں مسئلہ حل نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے اور اگر یہاں بھی ڈیڈ لاک ہو تو یہاں آئین خاموش ہے لہذا اس پر صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ از خود ممبران کا تقرر کریں۔

فروغ نسیم کے بقول، چیف الیکشن کمشنر کو یہ اختیار نہیں کہ وہ صدر کی طرف سے بھیجے گئے ناموں سے حلف لینے سے انکار کریں۔

XS
SM
MD
LG