آبنائے ہرمز کے قریب اپنی بحری مشقیں مکمل کرنے کے ایک روز بعد ایران نے کہا ہے کہ طیارہ بردار امریکی بحری جہاز کو خلیج فارس میں دوبارہ داخل نہیں ہونا چاہیے۔
ایرانی فوج کے سربراہ عطااللہ صالحی نے منگل کے روز کہا کہ ایران اپنا انتباہ نہیں دہرائے گا لیکن انھوں نے امریکی جہاز کا نام نہیں لیا۔
بحرین میں تعینات امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کی ایک ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’یو ایس ایس جان سی اسٹینس‘پہلے سے طے شدہ معمول کی کارروائی کے لیے آبنائے ہرمز کے راستے خلیج سے نکل گیا۔
ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس کے جوہری پروگرام کے باعث پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ آبنائے ہرمز بند کردے گا۔ خلیج فارس میں واقع اس بحری گذرگاہ سے دنیا کا ایک تہائی تیل بھیجا جاتا ہے۔ امریکی بحریہ نے کہا ہے کہ وہ کسی کو یہاں سے گزرنے والے تیل بردار بحری جہازوں کے سفر میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی۔
منگل کو فرانس نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف اس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کرنے سمیت مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
اس بیان سے قبل امریکہ کی طرف سے بھی ایسا ہی اقدام کیا گیا جس میں ایران کے مرکزی بینک پر پابندی عائد کرکے عالمی منڈیوں میں اس کے تیل کی برآمد کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پیر کو ڈالر کے مقابلے میں ایرانی کرنسی کی قدر کم ترین سطح پر آگئی تھی۔ اس سے دو روز قبل امریکی صدر براک اوباما نے پابندیوں کے قانون پر دستخط کیے تھے۔
یہ اقدام تہران کو اپنے جوہری اور میزائل پروگرام میں سرمایہ کاری کو متاثر کنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین کا اصرار ہے کہ ایران سول جوہری پروگرام کی آڑ میں ایٹمی ہتھیار تیار کررہا ہے جب کہ ایران اسے مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔