بین الاقوامی سلامتی کے ماہرین نے جمعرات کو منعقدہ امریکی کانگریس کی ایک سماعت کے دوران اِس بات پر اتفاق کیا کہ جوہری تنازع پر ہونے والی بات چیت میں ایران نے جو مؤقف اختیار کیا ہے، اُس کے باعث مغربی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ طے کرنے میں مشکلات درپیش آ رہی ہے۔
امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کی یہ شہادت ایسے وقت ہوئی جب ویانا کی بات چیت میں، جس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری شریک ہیں، جس میں 30 جون کی حتمی تاریخ پر دھیان مرکوز رہے گا۔
واشنگٹن میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ فور سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی‘ کے صدر، ڈیوڈ البرائٹ کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ایران کو یورینئیم کی افزودگی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم، البرائٹ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ اگر کوئی سمجھوتا طے ہوتا ہے تو اُسے منظوری کے لیے امریکی کانگریس کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے، جس میں سمجھوتے کے مشتملات میں شقوں کے محرک، مقاصد، دائرہ کار اور کلیدی تکنیکی اور پالیسی امور کی تفصیلی تشریح شامل ہونی چاہیئے۔
دیگر معاملات سے متعلق البرائٹ نے کہا کہ اس میں اصطلاحات کی وضاحت درج ہونی چاہیئے جس میں مادی اور وقت گزرنے کے ساتھ اختلافی اور انحرافی کے معاملات طے کرنے کا حوالہ دیا جائے۔ اور، یہ کہ قومی اور بین الاقوامی طریقہ کار، مداوے کا طریقہ، پاسداری نہ کرنے کی صورت میں نتائج بھگتنے کی شق، اور ایران کی جانب سے عمل درآمد پر رضامندی کے فقدان جیسے معاموں کو حل کیے جانے کا طریقہ بتایا جائے۔
اس ضمن میں، البرائٹ کا کہنا تھا کہ توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) کو ’جب چاہو‘ ، ’جہاں چاہو‘ کی بنیاد پر ایران کے تمام متعلقہ مقامات، تنصیبات، مواد، آلات، افراد، اور دستاویزات تک رسائی ہونی چاہیئے، جو باتیں اس سے قبل طے ہونے والے فریم ورک سمجھوتے میں شامل نہیں تھیں۔
واشنگٹن کی ’کونسل آن فورین رلیشنز‘ میں مشرق وسطیٰ کے مطالعے کے سینئر فیلو، رے تکیے نے کہا ہے کہ ہتھیاروں کے انسداد کے کسی بھی سمجھوتے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ طریقہ کار کیا ہوگا جس کے ذریعے خطرناک ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو مستقل طور پر روکا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے ایک قابل قبول سمجھوتے کی حدود و قیود کا ایک خاکہ پیش کیا، جس کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے اختیار کردہ امریکی پالیسی کے اصل قوائد کو پھر سے متحرک کرنا ہوگا، جس میں یہ بات شامل ہونی چاہیئے کہ ایران بین الاقوامی برادری کو مطمئن کرے کہ اُس کا جوہری پروگرام واقعی پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
تکیے نے یہ بھی کہا کہ ’جہاں کہیں، جب چاہے‘ کی بنیاد پر معائنے پر عمل درآمد کیا جائے۔
اُنھوں نے کمیٹی کو ایران کے بیلاسٹک میزائلوں کے پروگرام سے آگاہ کیا، جن کے بارے میں ترکیے کا کہنا تھا کہ یہ اُس کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے، جس بات کو سمجھوتے کا حصہ بنایا جانا چاہیئے۔
میساچیوسٹس کے شہر، کیمبرج میں قائم ’ایم آئی ٹی سکیورٹیز اسٹڈیز پروگرام‘ کے ادارے کے رسرچ ایسو سی ایٹ، جِم والش نے کہا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے ہوتا ہے تو نیوکلیئر کے میدان میں نہیں تو کم از کم ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے شعبے میں، امریکی پالیسی کے حوالے، یہ ایک اہم لمحہ ہوگا۔
والش نے کہا کہ، ’کہیں بھی، کبھی بھی‘ کی بنیاد پر معائنے کے علاوہ ایران کی جوہری کارروائیوں پر کئی حدود لاگو ہونی چاہیئں۔
والش نے کہا کہ اِن قدغنوں میں افزودگی کی سطح اور سنٹری فیوجز کی اقسام اور حدیں مقرر کی جائیں، جس میں یورینئیم کے ذخیرے کا حجم اور تشکیل؛ اور جوہری مواد کو دوبارہ زیر عمل لانے کا معاملہ شامل ہونا چاہیئے۔