ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جامع جوہری معاہدہ طے کرنے کی حتمی تاریخ کے قریب ایران کے آئینی نگران ادارے نے ایک قانون کی توثیق کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ملک کے جوہری حقوق کا تحفظ کرے۔
آئین کی شوریٰ نگہبان نے بدھ کو اس بل کی توثیق کی، جس میں فوجی تنصیبات اور سائنسدانوں تک رسائی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
ایران کے خبر رساں ادارے ’فارس‘ نے شوریٰ کے ترجمان نجات اللہ ابراہیمیان کے حوالے سے کہا ہے کہ آئینی ادارے نے کثرت رائے سے اس قانون کی منظوری دی اور اسے اسلامی قوانین اور ایران کے آئین کے منافی نہیں پایا۔
شوریٰ نگہبان سے منظوری کا مطلب ہے کہ یہ بل اب قانون بن جائے گا۔
مجوزہ قانون میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت ’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ کے معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات کے معمول کے دوروں کی اجازت ہو گی۔
منگل کو اپنے خطاب میں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ یہ جاننے کے لیے کہ ایران معاہدے پر کاربند ہے یا نہیں، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو فوجی تنصیبات تک رسائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک اپنے جوہری پروگرام پر طویل المدت قدغن قبول نہیں کرے گا۔
فریقین مجوزہ معاہدے کی جزیات پر کام کرتے رہے ہیں جس کے تحت ایران کو دس سال تک اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا ہوگا۔ بدلے میں ایران پر عائد ان پابندیوں میں رعایت کر دی جائے جن سے اس ملک کی اقتصادیات اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جامع معاہدہ طے کرنے کے لیے 30 جون کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دس یا بارہ سال تک جاری رہنے والی حد قابل قبول نہیں ہو گی۔
طرفین کے درمیان اختلاف کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ کس رفتار سے ایران پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں گی۔ برطانیہ، چین، فرانس، روس، امریکہ اور جرمنی پر مشتمل چھ عالمی طاقتیں پابندیوں کے مرحلہ وار خاتمے کی حمایت کرتی رہی ہیں۔
لیکن خامنہ ای نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایران چاہتا ہے کہ جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوں اقتصادی پابندی ہٹا لی جائیں۔