رسائی کے لنکس

کیا اب ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہوگا؟


ایران پاکستان گیس پائپ لائن (فائل فوٹو)
ایران پاکستان گیس پائپ لائن (فائل فوٹو)

پاکستان اور ایران نے ایک مرتبہ پھر طویل عرصے سے زیر التوا گیس پائپ لائن منصوبے میں پانچ سال کی توسیع پر اتفاق کیا ہے۔ اور دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے ایک نئے معاہدے پر دستخط آئندہ ہفتے ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہوں گے۔

نوے کی دہائی میں شروع ہونے والا گیس پائپ لائن منصوبہ اب تک مکمل نہیں ہو سکا۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس نے فرانس کی لیگل فرم کے ذریعے ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے پر نئے ترمیم شدہ معاہدے پر کام کیا ہے اور ایران کو معاہدے میں پانچ سال کی توسیع پر رضا مند کر لیا ہے۔

پاکستان اور ایران کے سرکاری حکام کے درمیان ترمیم شدہ معاہدے پر دستخط آئندہ ہفتے ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہوں گے۔

معاہدے کی دستاویزات کے مطابق، ایران ثالثی عدالت میں جانے کا نوٹس واپس لے گا، جبکہ منصوبے میں تاخیر پر پاکستان کو کوئی جرمانہ بھی ادا نہیں کرنا ہوگا۔

دستاویزات کے مطابق، ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن منصوبے کو 26 اگست 2024 تک توسیع دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر توانائی و پٹرولیم عمر ایوب خان نے اس بارے میں یہ کہتے ہوئے بات کرنے سے معذرت کر لی ہے کہ یہ معاملہ قومی مفاد کا ہے۔ لہذا وہ عوامی سطح پر بات نہیں کرنا چاہیں گے۔

آئی پی گیس پائپ لائن پر عمل کیوں نہ ہوسکا؟

ابتدائی معاہدے کے مطابق، جنوری 2015 میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد تہران نے اسلام آباد کو گیس کی فراہمی شروع کرنا تھی۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس نے فرانس کی لیگل فرم کے ذریعے نئے ترمیم شدہ معاہدے پر کام کیا۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس نے فرانس کی لیگل فرم کے ذریعے نئے ترمیم شدہ معاہدے پر کام کیا۔ (فائل فوٹو)

ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے پاکستان نے اپنے حصے کی 781 کلو میٹر طویل پائپ لائن پر 2013 میں تعمیر کے کام کا آغاز کیا تھا۔ تاہم، تہران پر اقتصادی تعزیرات کے باعث اسے تاحال مکمل نہیں کیا جا سکا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ عالمی اداروں سے مطلوبہ منصوبے کے لیے مالیات جس کا تخمینہ 1.65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، کی عدم دستیابی پائن لائن تعمیر کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

ایران نے پاکستان کی سرحد تک اپنی جانب 900 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام پہلے ہی مکمل کر لیا ہے۔

آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے والے سابق سیکرٹری پٹرولیم جے اے صابری کہتے ہیں کہ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے گزشتہ ادوار کی پالیسیوں کو آگے لے جانے کی بجائے نئے منصوبے لانے کی پالیسی اپنائی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جے اے صابری نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور قوت ارادی کی کمی کے باعث یہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔

ایران نے فروری 2019 میں منصوبے میں مسلسل تاخیر پر ثالثی عدالت میں جانے کے لیے پاکستان کو نوٹس بجھوایا تھا۔ (فائل فوٹو)
ایران نے فروری 2019 میں منصوبے میں مسلسل تاخیر پر ثالثی عدالت میں جانے کے لیے پاکستان کو نوٹس بجھوایا تھا۔ (فائل فوٹو)

ایران نے فروری 2019 میں منصوبے میں مسلسل تاخیر پر ثالثی عدالت میں جانے کے لیے پاکستان کو نوٹس بجھوایا تھا۔ پاکستان نے اس نوٹس پر اپنے جواب میں ایران پر عالمی پابندیوں کو تاخیر کا جواز قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ پابندیاں ختم ہونے پر منصوبہ مکمل کرلیا جائے گا۔

بعد ازاں پاکستانی حکام نے مذاکرات کے ذریعے ایران کو معاہدے کی توسیع پر قائل کر لیا۔ پاکستان نے ایران کو بتایا ہے کہ عالمی پابندیوں کے باعث منصوبہ مکمل نہ ہونے پر پاکستان کو جرمانہ نہیں ہوگا۔

ترمیم شدہ معاہدے کے بعد ایران منصوبے میں تاخیر کے حوالے سے پاکستان کو بجھوایا گیا قانونی نوٹس واپس لینے کا پابند ہوگا۔

جے اے صابری کا کہنا ہے کہ معاہدے میں توسیع ایران کا ایک مثبت اقدام ہے۔ تاہم ملک میں قدرتی مائع گیس یعنی ایل این جی ٹرمینل کے لگائے جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گیس پائپ لائن منصوبہ اب ترجیح نہیں رہا۔

آئی پی پائپ لائن منصوبہ کیا ہے؟

ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے منصوبے پر بات چیت کا آغاز 1995 میں ہوا تھا اور 2008 میں ہونے والے معاہدے میں ابتدائی طور پر بھارت بھی شامل تھا۔

ترمیم شدہ معاہدے کے بعد ایران منصوبے میں تاخیر کے حوالے سے پاکستان کو بجھوایا گیا قانونی نوٹس واپس لینے کا پابند ہوگا۔ (فائل فوٹو)
ترمیم شدہ معاہدے کے بعد ایران منصوبے میں تاخیر کے حوالے سے پاکستان کو بجھوایا گیا قانونی نوٹس واپس لینے کا پابند ہوگا۔ (فائل فوٹو)

پائپ لائن منصوبے پر 2008 میں سات ارب پچاس کروڑ ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ تاہم، امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد بھارت نے 2009 میں اس منصوبے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

بھارت کے منصوبے سے الگ ہونے کے بعد پاکستان اور ایران نے دوطرفہ طور پر اس معاہدے کو آگے لے جانے کا فیصلہ کیا اور مارچ 2010 کو انقرہ میں پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر حتمی دستخط کیے گئے۔

پاکستان اور ایران کے صدور نے مارچ 2013 میں اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا تو اس منصوبے کو ’امن پائپ لائن‘ کا نام دیا گیا تھا۔

دو طرفہ معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو 2014 کے آخر تک مکمل نہیں کرتا تو یکم جنوری 2015 سے ایران سے گیس نہ لینے پر پاکستان کو یومیہ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنا تھا۔

پاکستان میں قدرتی گیس کے بحران کے حل کے لیے اس گیس منصوبے کو بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

آئی پی پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستان کو 750 ایم ایم سی ایف ڈی (75 کروڑ مکعب فٹ) گیس یومیہ حاصل ہونا تھی جو کہ گوادر پورٹ کے مکمل ہونے پر ایک ارب مکعب فٹ ہوجانا تھی اور اضافی 25 کروڑ مکعب فٹ گیس گوادر میں استعمال کی جانا تھی۔

پاکستان کی وزارت پٹرولیم کے مطابق، اس وقت ملک کو دو ارب مکعب فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے اور اس کمی کو اس گیس پائپ لائن سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

معاہدے کی رو سے دونوں ممالک منصوبے کے مکمل ہونے پر گیس کی قیمت پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
معاہدے کی رو سے دونوں ممالک منصوبے کے مکمل ہونے پر گیس کی قیمت پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

گزشتہ دور حکومت نے اس پائپ لائن کو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ جوڑنے کا اعلان کیا تھا اور گیس پائپ لائن کو بچھانے کے لیے چینی تعمیراتی کمپنیوں سے رضامندی بھی حاصل کی۔ تاہم، تہران پر نئی اقتصادی تعزیرات نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں ایک بار پھر رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔

ایران سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس کی قیمت خام تیل کے نرخ کا 78 فیصد مقرر کی گئی۔ تاہم، ایران اور پاکستان دونوں اس پر نظرثانی پر اتفاق کر چکے ہیں۔

پاکستان میں بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران سے حاصل ہونے ولی گیس کی قیمت زیادہ ہے اور سابق دور حکومت میں اس پر نظرثانی کے لیے ایران سے بات چیت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

معاہدے کی رو سے بھی دونوں ممالک منصوبے کے مکمل ہونے پر گیس کی قیمت پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ ایران سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت خام تیل کا 70 فیصد ہوجائے۔ جس سے حکومت کو 25 برسوں میں تقریباً 100 ارب ڈالر سے زائد کی بچت ہوگی۔

ماہرین کے خیال میں آئی پی گیس منصوبہ ایل این جی اور تاپی سمیت کئی دوسرے معاہدوں سے مالی طور پر زیادہ فائدہ مند ہے۔

گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے قطر سے قدرتی مائع گیس یعنی ایل این جی درآمد کرنا شروع کی ہے۔

تاخیر کا شکار دیگر توانائی منصوبے

پاکستان اور ترکمانستان نے 14 نومبر 2011ء کو اسلام آباد میں تاپی یعنی ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

ترکمانستان کے شہر میری سٹی میں 2018 میں اس منصوبے کا افتتاح ہوا۔ جس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم سمیت افغانستان، ترکمانستان اور بھارت کے سربراہان نے شرکت کی۔

سترہ سو کلو میٹر طویل تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی لاگت 10 ارب ڈالر ہے۔ جس کے تحت پائپ لائن ترکمانستان، افغانستان، پاکستان کے راستے بھارت تک پہنچائی جائے گی۔

تاپی منصوبے پر پیش رفت کے باوجود منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل 2022 میں ہونا تھی۔ 3.2 ارب کیوبک فٹ مجموعی گیس حصولی کے اس منصوبے سے افغانستان کو 500 ملین کیوبک فٹ گیس یومیہ، پاکستان اور بھارت کو 1.325 ارب کیوبک فٹ گیس یومیہ حاصل ہو سکے گی۔

XS
SM
MD
LG