رسائی کے لنکس

سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی سازش پر شکوک وشہبات


سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی سازش پر شکوک وشہبات
سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی سازش پر شکوک وشہبات

ایران کی ساز باز سے امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کو بعض ایسے لوگ جو ایران کے امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، شک و شبہے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ انٹیلی جنس کے بعض تجزیہ کاروں کی نظر میں یہ منصوبہ جس میں ایک ایران نژاد امریکی ملوث ہے، قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا ۔

ایران کے امور کے بہت سے ماہرین، سفیر عادل الجبیر کو قتل کرنے کی مبینہ ایرانی سازش کے بارے میں الجھن میں گرفتار ہیں۔ فوجداری رپورٹ کے مطابق، ٹیکساس میں رہنے والے ایک ایران نژاد امریکی شہری نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے ایران میں مقیم ایک رکن کے ساتھ مل کر سعودی سفیر کو واشنگٹن میں قتل کرنے کی سازش کی ۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس قتل کے لیے میکسیکو کے منشیات کا کاروبار کرنے والے ایک گروہ کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی۔

امریکی عہدے داروں کا اصرار ہے کہ ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔ ایران نے سختی سے اس کی تردید کی ہے ۔

کانگریشنل ریسرچ سروس میں ایران کے تجزیہ کار، Ken Katzman کہتے ہیں کہ ایران سے اس قسم کی کارروائی کی مطلق توقع نہیں کی جاتی۔

ان کے مطابق امریکہ میں اس قسم کی سازش پر عمل کرنے کے بارے میں ایرانیوں کو خود اپنے لوگوں پر پورا اعتماد نہ ہوتا، تو وہ ہر گز ایسا نہیں کرتے۔وہ سعودیوں پر کہیں اور حملہ کرتے، جہاں وہ خود اپنے لوگوں پر اعتماد کر سکتے۔ وہ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمیں امریکہ میں یہ حملہ کرنا ہے جس کے لیے ہمارے پاس اپنے آدمی نہیں ہیں، اس لیے ہم دوسرے لوگوں سے یہ کام لیں گے، جنہیں ہم بالکل نہیں جانتے ۔ جو لوگ ایرانی دہشت گردی کا برسوں سے مطالعہ کرتے رہے ہیں، ان کے لیے یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔

قدس فورس کے کارندوں نے بعض اوقات یورپ اور مشرق وسطیٰ میں حکومت کے مخالف ایرانیوں کو ہلاک کیا ہے ۔ لیکن Katzman کہتے ہیں کہ ایرانی ایک سفیر کو قتل کرنے کا کام کسی باہر کے گروپ کے حوالے کبھی نہیں کریں گے۔ یہ بات قرین قیاس نہیں۔

پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایرانی سعودی سفیر کونشانہ کیوں بنائیں گے، اور وہ بھی امریکہ کی سرزمین پر۔ یہ صحیح ہے کہ شیعہ ایران اور سعودی بادشاہت کے درمیان تعلقات ایک عرصے سے خراب رہےہیں۔ وکی لیکس نے 2008ء کا ایک سفارتی کیبل جاری کیا ہے جس کے مطابق واشنگٹن میں سعودی سفیر عادل الجبیر نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر حملہ کردے۔ لیکن جیسا کہ مشرقِ وسطیٰ میں سی آئی اے کے ریٹائرڈ عہدے دار، چارلس فیڈیز نے کہا، واشنگٹن میں سعودی سفیر کو ہلاک کرنا، انتہائی خطرناک بلکہ احمقانہ حرکت ہوگی۔ ان کے الفاظ میں امریکہ کی سرزمین پر اتنی اہم شخصیت کو نشانہ بنانا ، جنگی کارروائی ہوگی جس کا مطلب ہوگا جوابی کارروائی کو دعوت دینا۔ ایسے وقت میں جب ہم عراق کو چھوڑ رہےہیں، اور افغانستان میں اپنی فوجیں کم کر ہے ہیں، اور ہم تقریباً دیوالیہ ہو چکے ہیں، ایسا کرنا کس طرح ایران کے مفاد میں ہو سکتا ہے؟ یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی۔

پرائیویٹ انٹیلی جنس فرم Stratfor کے تجزیہ کار کامران بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ کے دارالحکومت میں اس قسم کے قتل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ واشنگٹن اور ریاض ایک دوسرے کے اور قریب آ جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کے نقطۂ نظر سے ، امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان پہلے ہی بہت مضبوط تعلق قائم ہے ۔ ایرانیوں کو موجودہ حالات سے نمٹنے میں ہی کافی دقت پیش آ رہی ہے۔ وہ کوئی ایسی حرکت کیوں کریں گے کہ یہ دونوں ملک اور بھی زیادہ قریب آ جائیں؟

جو تھوڑی بہت معلومات ملی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ Ken Katzman کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اصل ملزم، Mansour Arbabsiar نے ایرانی انٹیلی جنس سے رابطہ کیا ہو اور ان کے سامنے ایسا کوئی منصوبہ رکھا ہو جس پر عمل کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ ان کا کہناہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کے القدس فورسز سے کچھ تعلقات تھے۔ ممکن ہے کہ اس نے ان سے رابطہ کیا ہو اور انَھوں نے اسے صاف طور سے یا اتنی سخت سے منع نہ کیا ہوجتنا انہیں کرنا چاہیئے تھا ۔ لیکن یہ خیال کہ یہ ایک ایسامنصوبہ تھا جس کی خوب جانچ کر لی گئی تھی، مجھے صحیح نہیں معلوم ہوتا۔

سی آئے اے کے سابق افسر چارلز فیڈیزکہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی مستقبل میں Mansour Arbabsiar سے کچھ کام لینے کے لیے اسے ٹیسٹ کر رہے ہوں، اور اس عمل میں وہ الجھ کر رہ گئے۔ بقول ان کےیہ بھی ممکن ہے کہ یہ شخص ایرانیوں سے کچھ پیسہ اینٹھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے ایرانیوں سے کہا ہو کہ وہ ان کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے ۔ پھر ایرانیوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے یہ شخص کون ہے، کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا، کچھ اقدامات کیے ہوں، اور اس عمل کے دوران انہیں پتہ چلا ہو کہ یہ ساری کارروائی شروع ہی سے امریکی انٹیلی جنس اور نفاذ قانون کے اداروں کے کنٹرول میں رہی ہے ۔

اطلاعات کے مطابق، امریکی عہدے داروں نے پتہ چلایا ہے کہ ایران سے تقریباً ایک لاکھ ڈالر Arbabsiar کو منتقل کیے گئے۔ عہدے دار کہتے ہیں کہ یہ اصل کام کے لیے ابتدائی ادائیگی تھی ۔ لیکن فیڈیز کہتے ہیں کہ ایران میں اقتدار کے لیے بہت سی طاقتوں میں رسہ کشی ہوتی رہتی ہے ۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ یہ ساری کارروائی سرکاری منظوری کے بغیر چوری چھپے کی جاتی رہی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں طاقت کے بہت سے سر چشمے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ بعض افراد نے طے کیا ہو کہ وہ کہیں زیادہ اشتعال انگیز لائحہ عمل اختیار کرنا چاہتے ہیں جسے اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہو سکے گی ۔ یہ وہ عناصر ہیں جو حکومت کی مرضی کے بغیر سرگرم ہو سکتے ہیں۔

لیکن ایرانی حکومت اس سازش میں ملوث ہو یا نہ ہو، صدر اوباما نے کہا ہے کہ ایران کی حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا جائے گا ۔ ان کے الفاظ ہیں ’ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایران کی حکومت میں اعلیٰ ترین سطح کے لوگوں کو اس منصوبے کی تفصیلات کا علم نہ ہو تو بھی، ایرانی حکومت میں جو لوگ بھی اس قسم کی سرگرمی میں ملوث تھے ان کی جوابدہی ہونی چاہئیے‘۔

امریکہ محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ اس پلاٹ کے حوالے سے، امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست رابطہ ہوا ہے، لیکن مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں ۔ ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG