بینائی سے محروم شاہدہ رسول نے، جسے پاکستان کی ’ہیلن کیلر‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ بصیرت کبھی بصارت کی محتاج نہیں ہوتی۔
راستے میں آنے والی تمام مشکلوں اور رکاوٹوں کو اپنے عزم و ہمت سے شکست دینے والی شاہدہ رسول نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو بتایا کہ یہ ایک کٹھن سفر تھا اور انہیں اپنے خاندان سے لے کر معاشرے تک خود کو منوانے کے لیے سخت جتن کرنا پڑے۔
وہ کہتی ہیں، ’’یہ سفر آسان نہیں تھا۔ میرے اپنے گھر والے سمجھتے تھے کہ میرا مقدر اسی طرح اندھیروں میں بھٹکتے رہنا اور لوگوں کے طعنے تشنے سنتے رہنا ہے۔ اور تو اور، جب ہمارے گھر مہمان آتے تو مجھے ان سے متعارف بہت کم یا مشکل ہی سے کرایا جاتا تھا۔ شاید وہ مجھے کسی تکلیف سے بچانا چاہتے تھے یا یہ سمجھتے تھے کہ وہ کتنے مکمل اور میں کتنی ادھوری ہوں‘‘۔
شاہدہ رسول نے مزید بتایا کہ وقت نے کروٹ لی اور میرے گھر والوں خاص طور پر میرے بھائی کو لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں پڑھ سکتی ہوں۔ لہٰذا، میں نے 9 سال کی عمر میں پڑھائی شروع کی۔
اِس راہ میں کتنی مشکلات آئیں، ہاسٹل میں روم میٹس سے لے کر ’پک اینڈ ڈراپ‘ تک کئی مشکل مرحلے آئے، بعض دفعہ تو مہینوں میری تعلیم کا سلسلہ رک جاتا۔ میرا حوصلہ یہ کہہ کر توڑ دیا جاتا کہ میں پڑھ کر کیا تیر مار لوں گی۔ ’’لیکن، میرے اساتذہ اور کچھ دوستوں نے میرے اندر اتنا شعور بیدار کر دیا تھا کہ جس کی روشنی میں، میں یہ دیکھنے کے قابل ہوگئی تھی کہ تعلیم ہی وہ چھڑی ہے جو مجھے آئندہ زندگی میں سہارا دے سکتی ہے۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ ’’میں نے بی۔ اے۔ کرنے کے بعد زکریا یونیورسٹی ملتان میں ماسٹرز کے لیے داخلہ لے لیا۔ میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو یونیورسٹی تک پہنچی اور اس سلسلے میں میری والدہ اور میری استاد نگہت افتخار نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ میں نے زکریا یونیورسٹی میں صرف پوزیشن ہی حاصل نہیں کی بلکہ یونیورسٹی کا 16 سالہ ریکارڈ بھی توڑ دیا‘‘۔
شاہدہ رسول بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایم اے کے بعد ایم فل بھی مکمل کیا اور اسلام آباد کے مارگلہ کالج برائے خواتین ایف سیون فور میں پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ اسی دوران، شاہدہ نے سوچا کہ درس و تدریس کے بعد وہ اپنا وقت مزید تعلیم حاصل کرنے میں کیوں صرف نہ کریں۔ لہٰذا، انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں سوچا کرتی تھی کہ جب وہاں اساتذہ کو میری محرومی کا پتہ چلے گا تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟‘‘
لیکن، جب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو کی سربراہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کو فون کیا اور اپنی خواہش کے ساتھ ساتھ اپنی محرومی کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ شاہدہ ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے۔ ہم آپ کا انتظار کریں گے، جب میں وہاں پی۔ایچ ۔ڈی کر رہی تھی تو میرے اساتذہ نے میرے ساتھ بے حد تعاون کیا۔
شاہدہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں پڑھانا ان کا خواب تھا، جو مختلف وجوہات کی بنا پر پورا نہیں ہو سکا۔ لیکن، پی۔ایچ۔ڈی کے دوران ڈاکٹر نجیبہ عارف نے جب کہا کہ شاہدہ آپ ہمیں بطور استاد جوائن کریں گی، تو یقین مانیں وہ لمحہ میری زندگی کے لیے بہت ہی باعث فخر تھا، اور اس سے میں نے اپنے آپ کو پہچانا اور یہ جانا کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بصارت سے محروم لڑکی کو نہیں پی۔ایچ۔ڈی کی طالبہ شاہدہ رسول کی بصیرت کو پہچانا ہے۔
اپنے آئندہ کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے شاہدہ رسول نے بتایا کہ وہ اپنی طالبات کے اندر بھی وہ حوصلہ اور جذبہ پیدا کرنا چاہتی ہیں جسے انہوں نے کوششوں کے بعد خود میں دریافت کیا، وہ چاہتی ہیں کہ ان لوگوں کو ایک نئے حوصلے سے روشناس کروائیں جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خود کو محروم سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ وہ پی۔ایچ۔ڈی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہتیں، بلکہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنا چاہتی ہیں۔
کسی بھی ظاہری محرومی کے شکار افراد کو پیغام دیتے ہوئے شاہدہ رسول نے کہا کہ ’’کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہوتی ہے، کچھ نظر آتیں ہیں کچھ پوشیدہ ہوتی ہیں، تو کسی بھی محرومی کو جواز بنا کر اپنی باقی صلاحیتوں کو ضائع مت کریں۔‘‘