دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جسمانی معذوری کو اپنی منزل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دیتے اور راستے میں حائل مشکلات کو اپنی لگن و محنت سے دور کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔
محمد فرقان بھی ایک ایسے ہی نوجوان ہیں، بینائی سے محروم ہونے کے باوجود وہ اپنی زندگی کا پرجوش سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فرقان اس وقت پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن میں کمپیوٹر ایپلیکشنز کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہاں تک سفر یقنیاً کچھ آسان نہیں تھا لیکن اُن کے بقول جب ارادہ بختہ ہو تو منزل تک پہنچنا دشوار نہیں ہوتا۔
’’میٹرک تک میں اسپیشل اسکولوں میں پڑھا۔۔۔۔۔ اسکول دور ہی میں میرا کمیپوٹر کی طرف رجحان بڑھ گیا تھا، میرے ذہن میں سوال بہت اٹھتے تھے۔۔۔۔۔۔ اب میں پاکستان ٹیلی ویژن میں کام کر رہا ہے۔۔ ڈیلولپمنٹ کی ٹیم کے ساتھ مجھے منسلک کیا گیا۔‘‘
پاکستان میں بصارت سے محروم افراد کے لیے حصول تعلیم، خاص طور پر جدید علوم تک رسائی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کے لیے تعجب کا باعث ہو کہ محمد فرقان کو بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے کسی ادارے میں داخلہ نہیں ملا اور اُنھوں نے از خود کمپیوٹر کے استعمال میں مہارت حاصل کی۔
کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ نا ملنے کا دکھ، فرقان کو ضرور ہے۔۔۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اساتذہ مل جاتے تو شاید بہت سی کمی دور ہو جاتی۔
وہ خود کو صرف کمپوٹر ہی کی حد تک گم نہیں رکھتے بلکہ اپنی اور اردگر رہنے والوں کی زندگی کو مزید خوبصورت و رنگین بنانے کے لیے نا صرف اچھی موسیقی سنتے ہیں بلکہ بہت اچھا گاتے بھی ہیں۔
محمد فرقان نے کچھ ویب سائٹس بھی بنائی ہیں اور کئی مزید ویب سائٹس پر بھی کام کر رہے ہیں۔
وہ صرف اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں ہی میں متحرک نہیں ہیں بلکہ گھر میں بھی وہ اپنے زیادہ تر کام خود ہی کرتے ہیں۔
فرقان کسی کی مدد کے بغیر اپنے گھر سے مرکزی سڑک تک جاتے ہیں جہاں سے اُن کے ادارے کی بس اُنھیں دفتر تک لے جاتی ہے۔
بصارت سے محروم اس نوجوان کا کہنا ہے کہ اُس نے اپنی اس محرومی کو کبھی خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔
محمد فرقان خود تو بینائی سے محروم ہیں لیکن اُن کا کام اور عزم بینا لوگوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔