پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ ان کے شہباز شریف کے ساتھ درپردہ کوئی رابطے نہیں۔ عمران خان کے اتحادی ہیں لیکن ان سے ایک سال سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مشورے دینے کا فائدہ تب ہے جب کوئی لینا چاہے۔ آدھے پاکستان کے خلاف نیب کیسز بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے خلاف تحقیقات کھول کر واردات کی جاتی ہے۔ حکومت گرانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں البتہ عمران خان چاہیں تو الگ بات ہے۔
انھوں نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ کے لیے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو انٹرویو میں کیا۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ شہباز شریف سے درپردہ کوئی رابطہ نہیں۔ ان کے بڑے کمالات ہیں اور انھوں نے ہمارے خلاف بھی کمالات کیے ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا اور مشرف دور میں بھی ان کے کام بند نہیں ہونے دیے۔ لیکن انھوں نے ہمارے ساتھ کبھی اچھا نہیں کیا۔ واپس آنے کے بعد ہمارے خلاف کیسز بنوائے۔
انھوں نے بتایا کہ عمران خان سے ملاقات کو ایک سال ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال بجٹ اجلاس کے موقع پر ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ سہیل وڑائچ نے پوچھا کہ وہ سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں تو کیا عمران خان کو حکومت چلانے کے لیے مشورے دیتے ہیں۔ پرویز الہٰی نے کہا کہ پہلے کافی مشورے دیتے تھے۔ لیکن جب کوئی پوچھے تب ہی مشورہ دینا چاہیے ورنہ مشورہ دینے والے کی عزت نہیں ہوتی۔
انھوں نے بتایا کہ حکومت میں شامل ہونے پر دو وزارتیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن جب مونس الہٰی کا نام دیا گیا تو کہا کہ اس کی بجائے کوئی اور نام دے دیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ مونس کے نام پر کیا اعتراض ہے تو انھوں نے کہا کہ اس پر نیب کے کیسز ہیں۔
چودھری پرویز الہٰی نے کہا کہ نیب کیسز تو آدھے پاکستان پر ہیں اور عمران خان کے اپنے وزرا پر بھی ہیں۔ بہرحال چودھری شجاعت نے کہا کہ مونس کو بنانا ہے تو بنائیں۔ ہم کوئی اور نام نہیں دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے خلاف نیب میں تحقیقات سازش کے تحت کھلوائی جاتی ہے اور یہ واردات ہوتی ہے۔ ہمیں پہلی واردات کرنے والے کا علم ہو چکا ہے۔ دوسرے کا بھی جلد پتا چل جائے گا۔ انھوں نے اس تاثر کی سختی سے تردید کی کہ وہ حکومت گرانے کی کسی کوشش میں شریک ہوئے اور پھر ہنستے ہوئے کہا کہ عمران خان چاہیں تو الگ بات ہے۔
چودھری پرویز الہٰی سے سوال کیا گیا کہ وہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے باوجود پنجاب اسمبلی میں کیوں آئے؟ انھوں نے کہا کہ میں نے وزارت اعلیٰ کے لیے ایسا نہیں کیا۔ عمران خان نے اس کی درخواست کی تھی کہ ان کے پاس ایوان چلانے کے لیے کوئی نہیں۔ اتنی بڑی اپوزیشن ہے، تحریک انصاف کے پاس کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو اسپیکر رہا ہو۔ میں اپنی مرضی سے نہیں، ان کی خواہش پر اسپیکر بنا۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ تحریک انصاف کا تھا۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ وہ کسے وزارت اعلیٰ دیتے ہیں۔ عثمان بزدار کے والد ہماری پارٹی میں تھے اور ان کے بھائی بھی پارٹی کے عہدے دار تھے۔ خود عثمان بزدار کو ہماری پارٹی نے تحصیل ناظم بنوایا تھا۔ اسی لیے اب ہم انھیں سپورٹ کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ نیک نیتی سے اتحادیوں کا ساتھ دیا ہے۔ علیم خان کو پہلی بار ہم نے اپنے دور میں وزیر بنایا تھا۔ وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ہار گئے تو ہم نے ضمنی انتخاب میں ان کی مدد کی۔ جہانگیر خان کو اپنے دور میں دفتر دیا اور مشیر بنایا۔ بعد میں وہ پارٹی چھوڑ گئے اور ہمارے کافی رہنما بھی توڑ لیے۔ لیکن جب ان کی بہن سینیٹ الیکشن لڑنے لگیں تو انھیں ہماری یاد آئی۔ ہم نے ان کی مدد کی اور ان کی بہن سینیٹر بن گئیں۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ انھوں نے کبھی دل میں بات نہیں رکھی اور کبھی دھوکا نہیں دیا۔ ہمیشہ بدلے کے بجائے درگزر کی سیاست کی۔
خاندانی سیاست کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا مونس الہٰی 2008 سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ اس کے کزن اب سیاست میں آئے ہیں۔ مستقبل میں کون پارٹی چلائے گا، اس کا فیصلہ کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ شوگر اسکینڈل میں اس کا نام غلط شامل کیا گیا کیونکہ وہ محض شئیر ہولڈر ہے، وہ کسی شوگر مل کی انتظامیہ کا حصہ نہیں۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ مونس الہٰی کے خلاف کیسز بنوانے میں حمزہ اور سلمان شہباز ملوث تھے اور اس کے لیے چودھری اعتزاز احسن کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہ بات خود اعتزاز احسن نے انھیں بتائی۔