لاہور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو 17 جون تک گرفتاری سے روک دیا ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر نیب سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔
شہباز شریف نے منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں عبوری ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی جس میں چیئرمین نیب اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
شہباز شریف نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ وہ نیب کے ساتھ ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ وہ کینسر کے مریض ہیں اور ملک میں کرونا کی وبا بھی پھیل چکی ہے۔
درخواست پر بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق عباسی اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
شہباز شریف خود عدالت میں پیش ہوئے جب کہ اُن کی جانب سے اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز ایڈوکیٹ نے دلائل دیے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نیب سید فیصل رضا بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ملک نے دلائل دیے کہ نیب نے جو ریکارڈ طلب کیا وہ دے دیا گیا۔ پھر بھی نیب گرفتاری کے لیے بے تاب ہے۔
عدالت نے شہباز شریف کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کا کیس کس اسٹیج پر ہے؟ جس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ شہباز شریف کے خلاف کیس انوسٹی گیشن کی اسٹیج پر ہے۔
دورانِ سماعت جج نے استفسار کیا کہ کیا نیب درخواست ضمانت کی مخالفت کرتا ہے؟ جس پر نیب کے وکیل نے بتایا کہ جی بالکل نیب اس کی مخالفت کرتا ہے۔
نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے۔
عدالت نے سوال اُٹھایا کہ نیب نے 28 مئی کو وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو پھر دو جون کو دوبارہ طلبی کا نوٹس کیوں بھیجا؟
عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں 17 جون تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا۔
شہباز شریف کو پانچ لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے نیب سے جواب طلب کیا ہے کہ کن ٹھوس شواہد کی بنا پر شہباز شریف کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے سیاسی اُمور شہباز گل نے مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ شہباز شریف جو مرضی کر لیں اُن کا مقدر جیل ہی ہے۔
شہباز گل کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں ڈیل کر کے جدہ جانے والے ایک بار پھر اسی نوعیت کی ڈیل کے خواہاں ہیں۔
شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ آمد پر سابق وزیر شاہد خاقان عباسی سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی عدالت کے باہر موجود تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ شہباز شریف کو حکومتی ایما پر گرفتار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت انتقامی سیاست کر رہی ہے وہ اور اُن کی جماعت نہ پہلے کبھی گرفتاریوں سے گھبرائی اور نہ آئندہ ڈریں گے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ "گزشتہ روز شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے اُن کی رہائش گاہ سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے۔ جو توہین عدالت کے مترادف تھا۔"
پنجاب حکومت کا موقف
وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اُس کی کارروائیوں سے وفاقی اور صوبائی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ سارا معاملہ نیب اور شریف فیملی کے درمیان ہے۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ شہباز شریف ماڈل ٹاؤن سے بغیر کسی رکاوٹ کے عدالت پہنچے۔
فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ وزرا کو گرفتاریوں کا اس لیے پہلے پتا چل جاتا ہے کیوں کہ وہ حکومت میں ہیں۔
لہذٰا حکومتی وزرا کے علم میں ہوتا ہے کہ نیب کے پاس کون سا کیس ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے۔ اس لیے یہ تاثر درست نہیں کہ نیب حکومت کے اشارے پر کام کرتا ہے۔