حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کہتے ہیں کہ نہیں معلوم حکومت سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے۔
پرویز الہی کہتے ہیں کہ حکومت نے نواز شریف کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے تو پھر ضمانتی بانڈز کہاں سے آ گئے۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی کہ نواز شریف کو جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ ایک طرٖف حکومت نے کہا ہے کہ ہمیں انسانی ہمدردی ہے تو انسانی ہمدردی کے ساتھ پیسے کہاں سے آ گئے۔
سابق وزیر اعظم کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت نے نواز شریف کو بیرون ملک بجھوانے کی حمایت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مشورہ مانگنے پر انہوں نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ اگر ان کی صحت واقعی تشویش ناک ہے تو فوری بیرون ملک جانے دینا چاہیے۔
ح
حکومت کی پالیسی کے حوالے سے چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ وزرا جو بھی توجیہات پیش کرتے رہیں لیکن یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ حکومت نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت پیسوں سے مشروط کرکے دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرا جو بھی موقف اپناتے رہیں اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری وزیر اعظم اور صدر پر عائد ہوگی۔
نواز شریف کے علاج کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا کہ انسانی مسئلے کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ انہیں نہیں معلوم کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے حکومت تذبذب کا شکار کیوں ہے۔
دھرنا کیسے ختم ہوا؟
جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے بعد اسلام آباد میں جاری غیر اعلانیہ دھرنے کے حوالے سے چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ ماضی میں اکبر بگٹی اور لال مسجد میں مذاکرات کے تجربے کو دیکھتے ہوئے نہیں چاہتے تھے کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے حوالے سے بات چیت میں خود سے ملوث ہوں تاہم وزیر اعظم اور مقتدر حلقوں کی جانب سے یقین دہانی کے بعد مصالحت کے کردار پر آمادہ ہوئے۔
جے یو آئی (ف) کے دھرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت سے جے یو آئی کے احتجاجی کارکنان کو واپس بجھوانے کے لیے انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے متعدد ملاقاتیں کیں جن میں سے کچھ میڈیا کی موجودگی میں اور کچھ آف دی ریکارڈ (خفیہ) ملاقاتیں تھیں۔
پرویز الہی کا کہنا تھا کہ ان پر مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان دونوں نے اعتماد کیا اور وہ بھی چاہتے تھے کہ معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔
ان کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے سے بہت کچھ حاصل کیا ہے جبکہ وہ ملک میں حزب اختلاف کے واحد رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ آزادی مارچ کا 'پلان اے' کس یقین دہانی یا ضمانت پر اختتام ہوا۔
چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ دھرنے میں طوالت کے بعد وزیر اعظم نے وفاقی وزرا کو اشتعال انگیر بیانات دینے پر پابندی لگائی اور غیر ضروری بیانات نہ آنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات میں بہتری آئی۔
مسلم لیگ (ق) کا حکومت سے اتحاد قائم رہ سکے گا؟
تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ حکومتی امور کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان کے سامنے رکھتے ہیں جبکہ اتحادی ہونے کی حیثیت سے نیک نیتی سے مشورہ دیتے ہیں تاہم حکومت ان کے مشورے ماننے کی پابند نہیں ہے۔
چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اپنا اتحاد قائم رکھنا چاہتے ہیں تاہم موقف وہی اپنائیں گے جو وہ درست سمجھتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا کہ وہ اِن ہاؤس تبدیلی یا حکومت کے جانے کی کوئی فوری صورت نہیں دیکھ رہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارگردگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ان کی جماعت کی عدد اکثریت بہت محدود ہے اس بنا پر وہ اس حوالے سے اعتراض نہیں کر سکتے۔
پرویز الہی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر بزدار حکومت کی معاونت کر رہے ہیں۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ وہ ہماری مدد نہ بھی لیں تو مدد دیتے ہیں اور خرابی دیکھتے ہیں تو تنبیہ بھی کرتے ہیں۔