بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں ہونے والے جنگی جرائم اور ظالمانہ کارروائیاں اس کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ بین الاقوامی عدالت کو ان کی سماعت کرنے کا اختیار ہے۔
جمعے کو سامنے آنے والے اس فیصلے کے بعد اسرائیل کا فوری ردِ عمل سامنے آیا۔ جو کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کا رکن نہیں ہے۔ جب کہ فلسطینی حکام نے آئی سی سی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
دوسری طرف امریکہ نے بھی بین الاقوامی عدالت کے مذکورہ فیصلے پر اعتراض کیا ہے۔
آئی سی سی کے فیصلے سے اسرائیل کے اعتراضات کے باوجود ان علاقوں میں سرزد ہونے والے مبینہ جرائم کی تفتیش کا راستہ کھل گیا ہے۔
بین الاقوامی عدالت کے ججوں کا کہنا تھا کہ ان کا فیصلہ صرف دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔ نہ کہ کسی کو ریاستی حیثیت دینے یا قانونی سرحدوں کا تعین کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ ہوا ہے۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر فیتُو بین سُودا کا کہنا تھا کہ ان کا دفتر اس فیصلے کو پڑھ رہا ہے جس کے بعد وہ یہ طے کرے گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔
فیصلے میں ججوں کا مزید کہنا تھا کہ کورٹ کو فلسطین کے ان علاقوں میں کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے جو 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ جن میں غزہ، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم شامل ہیں۔
اس سے قبل فیتو کا دسمبر 2019 میں کہنا تھا کہ اس کی معقول بنیاد موجود ہے کہ مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم ہوئے تھے یا ہو رہے ہیں۔
انہوں اسرائیل کی فوج اور فلسطینیوں کے مسلح گروہوں، جیسے حماس، دونوں کو اس کے ممکنہ ذمہ داروں میں شامل کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک تحقیقات شروع نہ کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔ تاہم انہوں نے بین الاقوامی عدالت کے ججوں پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا یہ کارروائیاں ان کے دائرہ کار میں آتی ہیں یا نہیں۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے ویڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ جب عدالت اسرائیل کے خلاف جعلی جنگی جرائم کی تحقیقات کرے گی تو یہ سراسر تعصب ہوگا۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے عدالتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ایسے وقت میں اسرائیل کے خلاف تحقیقات کرے گی کہ جب اسرائیل دہشت گردوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر رہا ہے۔
ان کے بقول عدالت ایران اور شام میں جاری مظالم کی تحقیقات نہیں کر رہی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ تمام تر دستیاب وسائل کے ساتھ اس عدالتی فیصلے کے خلاف لڑیں گے۔
'ہیومن رائٹس واچ’ سے منسلک بلقیس جاراح نے اس فیصلے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے متاثرین کو نصف صدی بعد کچھ امید ملے گی۔
فلسطین کی وزارتِ خارجہ کا بیان میں کہنا ہے کہ یہ دن احتساب کے اصولوں کے حوالے سے ایک تاریخی دن ہے۔
حماس کے عہدیدار سمیع ابو زوہری کی طرف سے فیصلے کو ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے فلسطینی عوام کو محفوظ کرنے میں مدد ملے گی۔