پاکستان نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے قابلِ قبول ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے قبل اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ جنوبی ایشیا کا مسلم اکثریتی آبادی کا بڑا ملک پاکستان، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
منگل کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے میڈیا میں جاری قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ اسلام آباد فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا اس سلسلے میں حالیہ بیان واضح اور غیر مبہم ہے۔
ترجمان نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے اس سلسلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق تنازع فلسطین کے منصفانہ حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق پائیدار اور منصفانہ امن کے لیے اقوامِ متحدہ اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ضروری ہے جس میں 1967 کی اسرائیل عرب جنگ سے پہلے کی سرحدیں ہوں جس میں القدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور مشرقِ وسطیٰ طاہر محمود اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
طاہر اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک مؤقف ہے پاکستان اسلامی تعاون تنطیم کا ایک اہم ملک ہے۔ وہ عالمی اُمور پر دیگر اسلامی ممالک سے مشاورت ضرور کرتا ہے۔ لیکن پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
طاہر اشرفی کے بقول پاکستان کی ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی ہے اور ہم اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ فلسطینیوں کی رضامندی کے بغیر تنازع فلسطین کا کوئی بھی حل اس کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہو گا جب کہ سعودی عرب کا بھی یہ اُصولی مؤقف ہے۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے فوری طور اسرائیل کو تسلیم کرنا شاید ممکن نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں پاکستان 'دیکھو اور انتظار کرو' کی پالیسی اپنائے گا۔
اُن کے بقول اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے ملک کے اندر اس معاملے پر رائے عامہ کو ہموار کرنے اور اپنی پالیسی تبدیل کرنے میں مدد ملی سکتی ہے۔
ہما بقائی کے بقول یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ماضی میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس میں بعض وجوہات کی بنا پر پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان میں اب بھی بعض حلقے موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ ایسے طبقے کی رائے ہے کہ کشمیر کے تنازع کے باوجود پاکستان کے بھارت کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات ہیں۔
ہما بقائی کے بقول اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ سعودی عرب میں زیرِ بحث ضرور ہے۔ تاہم جس طرح کی مجبوریاں مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک کی ہو سکتی ہے وہ مجبوریاں پاکستان کی نہیں ہیں۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن ایران کے ساتھ دوبارہ سفارتی رابطے بحال کے حق میں نظر آتے ہیں اور اس وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک تشویش پائی جاتی ہے۔
اُن کے بقول بعض عرب ممالک کا خیال ہے کہ خطے میں ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہو گی۔
لیکن ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال زیادہ تشویش ناک نہیں کیوں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی کو متوازن رکھنے کی کوشش کرے گا۔
دوسری جانب تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے بارے میں ایک اصولی مؤقف رہا ہے۔
ان کے بقول اگر اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین دو ریاستی حل کے بارے میں کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں مشکل نہیں ہو گی۔ لیکن موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد سے ہی تسلیم نہیں کیا جب کہ پاکستان کا پاسپورٹ بھی سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے سفر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اتوار کو اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے مبینہ طور پر سعودی عرب کا 'خفیہ دورہ' کیا تھا جس میں انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے۔
ان قیاس آرائیوں کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والی تاریخی معاہدے کے بعد مزید تقویت ملی۔ امارات اور اسرائیل نے اگست میں تعلقات قائم کیے تھے۔
سعودی حکام نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم کے دورے کی خبروں کی تردید کی تھی۔
اس مبینہ دورے کے بعد یہ افواہیں گردش کرنے لگی ہیں کہ پاکستان بھی اسی نقشِ قدم پر چلے گا اور سعودی عرب کے دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان کے روایتی طور پر سعودی عرب سے قریبی تعلقات ہیں۔ ریاض معاشی مشکلات کی صورت میں اسلام آباد کی مدد کرتا رہا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سفارتی دباؤ ہے۔ مگر انہوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ آیا یہ دباؤ اسلامی ممالک کی جانب سے ہے؟
وزیرِ اعظم نے اس سوال کے جواب میں کہا تھا کہ "اس معاملے کو رہنے دیں اور آگے بڑھیں۔ ایسی بہت سی باتیں ہیں جو عوامی سطح پر نہیں کی جا سکتیں۔ کیوں کہ ہمارے ان ممالک سے اچھے تعلقات ہیں۔ ہم انہیں ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ پہلے ملک کو پیروں پر کھڑا ہونے دیں پھر مجھ سے ایسے سوال کریں۔"