رسائی کے لنکس

کیا میڈیا کے لیے سرکاری اشتہارات صحافتی اقدار پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں جوں جوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا وقت قریب آتا گیا اسی طرح دیکھا گیا کہ ملک کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر قومی و صوبائی حکومتوں کی تشہیری مہم میں تیزی آتی رہی اور یہ تیزی اگست کے دوسرے ہفتے کے اختتام تک عروج پر رہی جب نہ صرف پرائم ٹائم میں بلکہ ٹی وی چینلز کی دن بھر کی نشریات میں ہر چند منٹ کے وقفے کے بعد وفاقی اور سندھ حکومت کے اشتہارات کی بھرمار نظر آتی رہی۔

میڈیا پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے دور کے آخری ہفتوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ریکارڈ اشتہارات جاری کیے جس کا مقصد جہاں عوامی رائے پر ہر ممکن طور پر اثر انداز ہونا تھا، وہیں اپنے مفادات کے لیے میڈیا اداروں کو بھی نوازنا بتایا جاتا ہے۔

سندھ میں برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت نے رواں مالی سال میں محکمۂ اطلاعات کے لیے مجموعی طور پر نو ارب 47 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا تھا جس میں سے اشتہارات اور تشہیر کے لیے 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ان میں سے پہلی سہ ماہی کا حصہ دو ارب روپے بنتا ہے لیکن ذرائع سے دکھائی گئی مصدقہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ اب تک رواں سہ ماہی کے نصف ہی میں ڈھائی ارب روپے سے زائد اشتہارات کی مد میں خرچ کیے جاچکے ہیں۔

اس بات کی تصدیق اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایسوسی ایشن (اے پی این ایس)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور میڈیا مالکان کی نمائندہ تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کی جانب سے ان بیانات سے بھی ہوتی ہے جس میں سندھ حکومت کے محکمۂ اطلاعات کی جانب سے اشتہارات کے بلوں کی ادائیگی نہ صرف بروقت بلکہ وقت سے پہلے ممکن بنانے کو سراہا گیا ہے۔

لیکن کیا سرکاری اشتہارات کی بھرمار سے حکومت صحافت، صحافتی اداروں کی پالیسیوں اور خود صحافیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کررہی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم نے کئی صحافیوں، ڈائریکٹر نیوز اور دیگر سے گفتگو کی کوشش کی، تو متعدد نےاس پر معذرت کی اور آف دی ریکارڈ گفتگو پر ہی رضامندی کا اظہار کیا۔

تاہم انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ اشتہارات ملنے کے عوض نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف خبروں کو جگہ نہیں دی جاتی بلکہ بعض نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اشتہارات حاصل کرنے کے عوض رشوت بھی وصول کی جا رہی ہے جب کہ من پسند چینلز کو زیادہ اور ایسے چینلز اور اخبارات کو کم اشتہارات دیے گئے جو حکومت پر سخت تنقید کرتے آئے ہیں۔

میڈیا کا محور عوام کم اور کاروبار زیادہ

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر اور سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ حکومت کی یہ ترجیح ہوتی ہے کہ میڈیا مالکان کو خوش رکھا جائے تاکہ اس سے اس ادارے کی ایڈیٹوریل پالیسی پر کنٹرول رکھا جاسکے۔ لگ بھگ 20 برس قبل تک کی صحافت میں اخبارات کی ایڈیٹوریل پالیسی میں ایڈیٹر کا مرکزی کردار ہوتا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔ اور اب میڈیا میں بزنس یعنی تجارت حاوی ہوچکی ہے۔

ان کے مطابق اب حکومت اشتہارات کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ پہلے آزادیٴ صحافت ایڈیٹر اور ورکنگ جرنلسٹ کے ہاتھ میں تھی۔ صحافی کوئی اسٹوری لاتا تو اس کو چھاپنے کا کلی اختیار صرف ایڈیٹر کے پاس ہوتا تھا اور مالک کو اس پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ لیکن اب یہ شعبہ تبدیل ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت تو اپنی واہ واہ کرانا چاہتی ہے اور اب حکومت کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اداروں کی کمزوری کے بعد میڈیا کی آزادی مالکان کے ہاتھ میں آچکی ہے اور اشتہارات فیصلہ کرتے ہیں کہ کون کون سی خبریں شائع اور چلائی جانی ہیں اور کون سی نہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار دیکھا جارہا ہے کہ حکومت نے اس بار پیمرا قوانین میں لائی گئی ترامیم میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو ٹی وی چینل اپنے کارکنوں کو تنخواہ نہیں دے گا ان کو حکومتی اشتہارات نہیں دیے جائیں گے اور اسی طرح کم سے کم اجرت نہ دینے والے چینلز کو بھی اشتہارات جاری نہیں ہوں گے۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق یہ ایک اچھا اقدام ہے تاہم دیکھنا ہے کہ اس پر عمل درآمد کتنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ جب سے حکومت نے پریس کلب، صحافتی یونین کو گرانٹس اور اشتہارات دینے شروع کیے تو کہاں کی آزادیٴ صحافت بچی؟

ان کے خیال میں اس کا حل کوئی قلیل المدت منصوبہ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ طویل المدت کام ہے۔ اس میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ خود ریاست کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ریاست کے تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) پر نظر رکھنے اور تعمیری تنقید کے لیے آزاد صحافت معاشرے کے لیے ناگزیر ہے جس کی حمایت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادیٴ صحافت صرف صحافیوں کے لیے ضروری نہیں بلکہ یہ آزادی ہوگی تو میڈیا عام آدمی کی آواز بن پائے گا۔

تشہیری مہم سے لوگوں کو آگاہ کرنے کا دعویٰ

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ پانچ سال قبل صوبائی حکومت کی ناکامی یہ رہی کہ اس نے عوامی خدمت کے کاموں کی ٹھیک طریقے سے تشہیر نہیں کی تھی۔ لوگوں کو بتا نہیں پاتے تھے کہ صوبائی حکومت نے وہ کون کون سے نئے منصوبے شروع اور مکمل کیے، جن سے براہِ راست عوام کو فائدہ پہنچا۔ لیکن اب چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔ ہم نے لوگوں کو اپنے کام بتانا شروع کیے۔

'کہیں کیمرا ٹوٹا، کہیں نیٹ بند ہوا، کہیں صحافی گرفتار'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:28 0:00

انہوں نے کہا کہ وہ بالکل نہیں کہتے کہ چیزیں آئیڈیل ہوچکی ہیں لیکن ہاں بہتری کی جانب سفر شروع اور سمت کا تعین ہو چکا ہے۔

محکمۂ اطلاعات کی آڈٹ رپورٹ میں بے قاعدگی

دوسری جانب اسی سال 24 مئی کو سال 22-2021 کی جاری ہونے والی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں اشتہارات کی پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا اور ایسے میں اشتہارات جاری کرنے میں بےجا احسانات اور اقربا پروری کا مظاہرہ کیا گیا۔

اسی آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مختلف اشتہاری مہمات کے دوران مختلف ٹی وی چینلز اور ایڈ ایجنسیز کو 13 کروڑ 83 لاکھ روپے کے خلاف قانون ایک سے زائد ریلیز آرڈر جاری کیے گئے۔

اسی طرح آٹھ کروڑ 50 لاکھ روپے کے اشتہارات ایسے ٹی وی چینلز یعنی خیبر نیوز اور روہی ٹی وی کو بھی جاری کیے گئے جو مقامی زبانوں میں نشریات ہی نہیں کرتے۔

بلکہ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے متعدد اخبارات کو بھی سات کروڑ 23 لاکھ کے اشتہارات جاری کیے گئے جو اسٹالز پر کم ہی دستیاب ہوتے ہیں یعنی ان کی سرکولیشن نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ان پر حکومت نے نوازشات کیں۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق بعض ایسے ٹی وی چینلز کو حکومت کے منظور کردہ ایئر ٹائم ریٹس کے بجائے ان کے اپنے طے کردہ ریٹس پر ہی اشتہارات جاری کیے گئے اور ایسے میں خزانے سے تین کروڑ 51 لاکھ روپے کا اجرا ہوا جب کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو دو کروڑ 32 لاکھ سے زائد کی ادائیگیاں تمام تر تفصیلات کے حصول کے بغیر ہی کی گئیں۔

آڈیٹر جنرل کی ویب سائٹ پر موجود اس آڈٹ رپورٹ میں سندھ حکومت کی جانب سے پریس کلبز کے نام پر شخصیات کو ایک کروڑ 93 لاکھ روپوں کی گرانٹس اور اخبارات میں ایک کروڑ 92 لاکھ سے زائد کے اضافی اشتہاری مہم پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

وفاقی حکومتی کے اشتہارات کے ریٹس میں بھی 35 فیصد اضافہ

ایسے وقت میں جب ملک کو ایک تاریخی معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسے آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننی پڑی ہیں، اس وقت حکومت نے اخباری مالکان کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر حکومت کے اشتہارات کے ریٹس میں 35 فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق یہ اضافہ فروری 2017 میں مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت کے دور میں کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد عمران خان حکومت میں نہ صرف اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات میں خاطر خواہ کمی کی گئی تھی جس پر میڈیا مالکان کی تنظیموں کی جانب سے دبے اور کھلے الفاظ میں سابقہ حکومت کے اس اقدام کو میڈیا کے معاشی حالات خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی جاتی رہی تھی۔

متبادل آمدن کے ذرائع پر زور

دسمبر 2022 میں غیر سرکاری ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی جانب سے شائع شدہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ روایتی میڈیا کا زیادہ تر انحصار حکومت سے اشتہاری آمدنی اور اسپانسر اشتہار پر رہتا ہے۔ متبادل آمدنی پیدا کرنے والے روایتی میڈیا گروپس کے اندر اختراعی ماڈلز جیسے مواد کی مونیٹائزیشن، کمیونٹی کی رکنیت، کراؤڈ فنڈنگ کم ہونے کی وجہ سے روایتی میڈیا کو شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اشتہارات سے آمدنی کی کمی سے یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے۔

دوسری جانب اشتہاری رجحانات روایتی میڈیا سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی طرف آمدنی کے منتقل ہونے کی واضح تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس تبدیلی سے روایتی میڈیا کے لیے ممکنہ طور پر دستیاب آمدنی میں مزید کمی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے سال 2013 میں قائم میڈیا کمیشن نے بھی اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ سرکاری اشتہارات جاری کرنے کے لیے حکومت کو مزید شفافیت کا نظام اپنانے کی ضرورت ہے تاہم کئی ماہرین کے بقول اس کی بیشتر سفارشات 10 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی عمل درآمد کی منتظر ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG