رسائی کے لنکس

پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوشی منانے والے بھارتی مسلمانوں کی گرفتاریاں


اتر پردیش میں گرفتار شاگرد ارشد یوسف کی والدہ بچے کی تصویر دکھاتے ہوئے۔
اتر پردیش میں گرفتار شاگرد ارشد یوسف کی والدہ بچے کی تصویر دکھاتے ہوئے۔

بھارتی پولیس نے کم از کم ایک درجن بھارتی مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ہے جو مبینہ طور پر 24 اکتوبر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ٹی 20 میچ میں پاکستان کی فتح پر خوشی منا رہے تھے۔

ان گرفتاریوں میں ریاست راجستھان کی ایک مسلمان ٹیچر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے واٹس ایپ پر پاکستان کی جیت پر لکھا "ہم جیت گئے"۔ ان کو مبینہ طور پر ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ اسی طرح اسپتال میں کام کرنے والی ایک کشمیری مسلم خاتون کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کی جیت پر مسرت کا اظہار کیا تھا۔

بھارت کی ریاست اتر پردیش میں پاکستان کی جیت پر خوشی منانے والے سات افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں تین کشمیری طلباء بھی شامل تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سب پر بغاوت کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے، جس کی سزا سات سال تک کی قید کی ہو سکتی ہے ۔

سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جیت پر خوشی منانا یقینی طور پر "بغاوت" کے زمرے میں نہیں آتا اور ایسا سوچنا بھی سراسر حماقت ہے۔

ٹی20 کرکٹ عالمی مقابلہ ان دنوں متحدہ عرب امارات میں ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخ تعلقات کی وجہ سے بھارت کی حکومت اپنی ٹیم کو پاکستان میں کھیلنے کا اجازت نہیں دیتی۔ آٹھ سال سے دونوں ٹیموں کا آپس میں مقابلہ نہیں ہوا اور اس طویل عرصے کے بعد پہلی بار یہ ٹیمیں آمنے سامنے آئیں اور یہ میچ پاکستان جیت گیا۔

چوبیس اکتوبر کو ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان کی جیت پر بھارت میں رہنے والے کچھ مسلمانوں نے مسرت ظاہر کی۔ خوشی کے اس اظہار کو بھارت میں وطن دشمنی خیال کیا گیا۔ 27 اکتوبر کو گرفتار ہونے والی مسلمان ٹیچر نفیسہ عظاری کا تعلق راجستھان کے شہر اودے پور سے ہے، جہاں وہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ انہیں واٹس ایپ پر پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے کی پاداش میں فوری طور پر ملازمت سے برخواست کر دیا گیا اور بعد میں ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔

اسی دن اتر پردیش میں سات افراد کو اسی جرم کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ اتر پردیش کی پولیس نے ان گرفتاریوں کے بارے میں ٹوئٹ کیا کہ گرفتار ہونے والے "قوم دشمن عناصر" ہیں۔ انہوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے خلاف غیر مہذب زبان استعمال کی اور ان کے تبصروں کی وجہ سے امن عامہ میں خلل پڑا۔

بتایا جاتا ہے کہ کشمیری طلباء پر بھارت کے انفارمیشن ایکٹ کے تحت سائیبر دہشت گردی کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے کہا کہ بھارت میں جو لوگ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کی خوشی منائیں گے، انہیں کڑی سزا دی جائے گی اور ان کو بغاوت کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جموں و کشمیر سٹوڈینٹس ایسوسی ایشن کے قومی ترجمان ناصر خوایحامی نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے کئی صوبوں میں کشمیری طلباء پر پرتشدد حملے کیے گئے۔ آگرہ میں میں طلباء کو سخت ہراساں کیا گیا اور ان پر جو الزامات لگائے گئے، وہ سراسر غلط تھے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی موجودگی میں ہندو انتہا پسند گروپ نے کشمیری لڑکوں کو اس وقت مار پیٹا جب انہیں عدالت میں پیش کیا جا رہا تھا۔ آگرہ کے وکیلوں کی بہت سی تنظیموں نے اعلان کیا کہ وہ ان طلباء کے مقدمے کی پیروی نہیں کریں گی۔ ان تینوں کشمیری طلباء کے والدین نے اتر پردیش کی حکومت سے رحم کی اپیل کی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج گپتا نے اپنے ویڈیو انٹرویو میں کہا کہ پاکستانی ٹیم کی جیت پر جشن منانا اشتعال انگیز اور غیر دانش مندانہ فعل تو ہو سکتا ہے مگر اسے جرم نہیں کہا جا سکتا۔ یہ قطئی غیر قانونی نہیں ہے کوئی چیز اچھی یا بری ہو سکتی ہے، مگر ضروری نہیں کہ وہ ایک جرم یا غیر قانونی عمل بھی ہو۔

XS
SM
MD
LG