رسائی کے لنکس

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سیاسی کارکنوں پر حملہ، دو ہلاک ایک زخمی


جمعے کو نامعلوم مسلح افراد نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر میں علاقائی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے تین سرکردہ کارکنوں پر نزدیک سے گولیاں چلائیں۔

شدید طور پر زخمی ہونے والے تینوں افراد کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا، جہاں ان میں سے دو زخمی تاب نہ لاکر چل بسے، جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق، ان کا تیسرا ساتھی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

دیکھنے والے کہتے ہیں کہ حملہ آور نیشنل کانفرنس کے ان کارکنوں کو سرینگر کے قرفلی محلے میں ہدف بنانے کے بعد وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ عہدیدارواں کے مطابق، مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے اس محلے اور ملحقہ بستیوں کو فوری طور پر گھیرے میں لیکر حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ ایک دکان میں بیٹھے ان تین افراد پر کیا گیا اور اس میں علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کا ہاتھ لگتا ہے۔ سرینگر کے پولیس سربراہ اسماعیل امتیاز نے بتایا کہ "یہ کوئی بلا امتیاز فائرنگ نہیں تھی بلکہ یہ ٹارگیٹ کِلنگ کا واقعہ ہے"۔

تاہم، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیموں میں سے کسی نے بھی تا حال نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کو ہدف بنانے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

حملے میں جو سیاسی ورکر ہلاک ہوئے ان کی شناخت نذیر احمد بٹ اور مشتاق احمد وانی کے طور پر کی گئی ہے، جبکہ ان کا شدید طور پر زخمی ہونے والا ساتھی شکیل احمد زنگو ہے جو نیشنل کانفرنس کی مقامی رکن اسمبلی شمیمہ فردوس کے نائب بھی ہیں۔

نیشنل کانفرنس ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے اور اس کے بھارت کے ساتھ الحاق کی توثیق کرتی ہے۔ تاہم، یہ ریاست کو 1947 کی دستاویزِ الحاق اور 1952 میں طے پائے دِلیّ معاہدے کے تحت حاصل اندرونی خود مختاری کی بحالی کے حق میں ہے اور کہتی ہے کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق صرف تین شعبوں۔۔۔دفاع، مواصلات اور خارجی امور۔۔۔ پر ہوا تھا۔

خونریزی کا یہ واقعہ شورش زدہ ریاست میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالے جانے کے چند روز پہلے ہوا ہے۔ اس مرحلے میں سرینگر میونسپل کارپوریشن کے نمائندوں کے انتخاب کے لئے بھی پیر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

نیشنل کانفرنس ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔ اس کا اور ریاست کی ایک اور بڑی علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کا موقف ہے کہ اول تو شورش زدہ ریاست میں پائی جانے والی زمینی صورتِ حال دیہی اور شہری بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے سازگار نہیں ہے اور پھر آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کے بارے میں نئی دہلی اور سرینگر میں حکومتوں کے مبہم اور غیر واضح موقف نے کشمیری عوام میں ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ اس آئینی شق کے تحت جسے بھارتی سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا ہے ریاست کو ہند یونین میں خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔

نیشنل کانفرنس کی قیادت نے کچھ عرصہ پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اُس وقت تک کی کسی بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے گی جب تک نہ نئی دہلی عدالت اور عدالت کے باہر دفعہ 35 اے کے بارے میں اپنا موقف تسلی بخش طور پر واضح کردے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں نے بھی بلدیاتی اور پنچا یتی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل جاری کر دی ہے۔ لیکن ان کا اس بارے میں موقف بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی طرف سے اختیار کئے گئے موقف سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا کے کہ بھارتی آئین کے تحت ہونے والے انتخابات چاہے وہ بلدیاتی اداروں کے لئے کرائے جائیں یا ریاستی اسمبلی یا بھارتی پارلیمنٹ کے لئے کشمیریوں سے کئے گئے حق رائے دہی کے وعدے کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ ان کا یہ اصرار بھی ہے کہ بھارتی آئین کے تحت ہونے والے کسی بھی انتخاب میں شرکت یا ووٹ ڈالنا، ان کے بقول، کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کو دوام بخشنے کے مترادف ہے۔

سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اور عمر عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں پر کئے گئے ان حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے ایک وفد نے گورنر ستیہ پال ملک سے ملاقات کرکے واقعے کہ غیر جانبدرانہ تحقیقات کرانے اور پارٹی کے کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے مطالبے کئے۔

ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کہ شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ، "لگتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کا قتل انتخابات کے موقعے پر امیدواروں اور رائے دہندگان میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی غرض سے کیا ہے۔"

اُدھر نئی دہلی میں بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ریاست کے نوے فیصد لوگ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے اعتراف کیا کہ ریاست میں حالات بہتر ہونے چاہییں۔

انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ جموں و کشمیر میں صورتِ حال بہتر ہونی چاہیے۔ لیکن ہمیں پاکستان کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن یہ ملک اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے۔ یہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی مسلسل پشت پناہی کر رہا ہے"۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG