جمعرات کو بھارتی کشمیر کے مصروف بازاروں میں بم دھماکے ہوئے جِن کے باعث دو افراد ہلاک جب کہ 13زخمی ہوئے۔
پہلا دھماکہ بارہ مولا کے ایک بازار میں کیا گیا جہاں لوگوں کی بڑی تعداد خریداری میں مصروف تھی۔ اِن میں بھارتی سرحدی حفاظتی دستے کے سپاہیوں کی ایک جمعیت بھی شامل تھی۔
دستی بم کے اِس حملے میں ایک شہری موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ ایک اور شہری اور بارڈر سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) کے دو سپاہی شدید زخمی ہوگئے۔ بعد میں ، بی ایس ایف کا ایک سپاہی اسپتال میں چل بسا۔
ایک اور حملہ بٹمالو میں کیا گیا۔ حملہ آوروں کا نشانہ سینٹرل رِزرو پولیس فورس (سی آرپی ایف) کے سپاہی تھے، لیکن اُن کا نشانہ چوک گیا اور دستی بم ایک مسافر بس کے قریب گِر کر پھٹ گیا۔ واقع میں 11شہری زخمی ہوگئے۔
عہدے داروں نے دونوں حملوں کے لیے مسلمان عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
دریں اثنا، بھارتی کشمیر میں حزب ِ اختلاف کی سب سے بڑی بھارت نواز جماعت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے لیڈروں اور کارکنوں نے جمعرات کو دارالحکومت سری نگر کی سڑکوں پر پیدل مارچ کیا۔ جلوس کی قیادت پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کر رہی تھیں۔
مظاہرین اُن 2000سے زائد افراد کی شناخت کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے جو بھارتی کشمیر کے 38مقامات پر دریافت کی گئی بے نام اور اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔
پی ڈی پی کی صدر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بھارتی کشمیر میں اجتماعی قبروں کی موجودگی پر نہ صرف بھارتی سیاسی جماعتوں نے خاموشی بلکہ ملک کے ذرائع ابلاغ نے بھی اِس طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
دسمبر 2009ء میں ’انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل آن ہیومن رائٹس‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ اُسے بھارتی کشمیر میں 2700ایسی بے نام اور اجتماعی قبریں ملی ہیں جِن میں تقریباً 3000افراددفن ہیں۔
حال ہی میں ’جموں و کشمیر اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن‘ نے کہا ہے کہ قبروں میں 2156افراد دفن ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے حکومتِ بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ اِس کی آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائے۔