سخت کرفیو کے باوجود، حالیہ ہفتوں میں، وادیٔ کشمیر میں ہزاروں لوگ بھارت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ، سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ یہ مظاہرے جون میں شروع ہوئے تھے جب ایک نوجوان آنسو گیس کا گولہ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ مظاہروں کو کچلنے کی کوشش میں تشدد میں اور اضافہ ہوا ہے۔ بھاری اسلحہ سے لیس سکیورٹی فورسز کی گولیوں سے پتھر پھینکنے والے نوجوانوں کی جانیں جاتی ہیں تو مظاہرین اور زیادہ مشتعل ہو جاتے ہیں۔ وہ پولیس اسٹیشنوں اور سکیورٹی فورسز کے مورچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ انھوں نے پولیس کی گاڑیوں کو جلا دیا ہے اور ریلوے اسٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں پر حملے کیے ہیں۔
ان مظاہروں سے بھارتی حکام کو سخت دھچکا لگا ہے ۔ وہ یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ گذشتہ چند برسوں میں کشمیر میں نسبتاً امن رہا ہے اور علیحدگی پسندوں کی شورش جس نے 1990 کی دہائی میں علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ، ختم ہو جائے گی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس زمانے کی بغاوت اور آج کل کے ہنگاموں کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے ۔ اس وقت تشدد کو ہوا دینے والے اسلامی عسکریت پسند تھے جن کے اڈے پاکستان میں تھے، لیکن اس بار ہنگاموں میں تمام مقامی لوگ شامل ہیں جو اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
امیتابھ مٹّو نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کی سڑکوں پر آپ کو جو منظر دیکھ رہے ہیں وہ ان نوجوانوں کے غصے کا اظہار ہے جنھوں نے ہنگاموں اور خلفشار کے ماحول میں آنکھ کھولی ہے اور جنہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ۔’’یہ جوانوں کی وہ نسل ہے جو 20 برس سے خون خرابا دیکھ رہی ہے۔ جنہیں قدم قدم پر ہراساں کیا جاتا رہا ہے، جنہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ ان سب چیزوں سے کشمیریوں میں مظلومی اور محرومی کا احساس پیدا ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ نہ سیاسی طور پر انصاف کیا گیا ہے اور نہ اقتصادی طور پر۔‘‘
جیسے جیسے احتجاج میں شدت آئی ہے ، حکومت نے علاقے میں مزید ہزاروں فوجی جھونک دیے ہیں جب کہ کشمیر میں پہلے سے ہی فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔
صورتِ حال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ فوج کو مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی چلانے کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔ لیکن سکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ، لوگوں کا غصہ بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔
وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے 18 مہینے پہلے اقتدار سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ ریاست میں فوج کی تعداد کم کر دیں گے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ امن و امان بحال کرنے کے لیے مزید سکیورٹی فورسز کو تعینات کرنا پڑا ہے ۔ جب لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو اکثر اوقات اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
بہت سے نوجوان سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا شکار ہو چکے ہیں اور سکیورٹی کے عملے کے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔
امیتابھ مٹّو کہتے ہیں کہ صورت حال اس لیے اور زیادہ خراب ہوئی ہے کیوں کہ سکیورٹی فورسز کو سویلین احتجاج سے نمٹنے کی تربیت نہیں دی گئی ہے ۔’’بد قسمتی سے جموں اور کشمیر میں پولیس اور نیم فوجی فورسز گذشتہ 20 برسوں سے باغیوں اور عسکریت پسندوں سے لڑتی رہی ہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ نہتے شہریوں سے یا ایسے لوگوں سے جن کے ہاتھوں میں صرف پتھرہوتے ہیں، کیسے نمٹا جائے ۔اکیسویں صدی میں آپ کو یہ یقین کرنا چاہیئے کہ جن لوگوں کےہاتھوں میں اسلحہ نہیں ہے، انہیں احتجاج کرنے کی سزا موت کی شکل میں نہ ملے۔‘‘
ریاستی اور وفاقی حکومتوں دونوں نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے احتجاج ختم کردیں تا کہ تشدد کا سلسلہ ختم ہو۔ ایک ممتاز علیحدگی پسند لیڈر، سید علی شاہ گیلانی نے بھی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ صرف پُرامن احتجاج کریں۔
بھارتی لیڈروں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تشدد رک جائے تو وہ مظاہرین کی شکایات پر توجہ دیں گے ۔ پارلیمنٹ میں اس ہفتے وزیرِ داخلہ پی چدم برم نے کہا ہے کہ حکومت ، ریاست میں سیاسی عمل شروع کرے گی۔ انھوں نے کہا ’’ ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ جموں اور کشمیر کے مسائل کا تعلق ہمارے اپنے لوگوں کے مسائل سے ہے اور ہمیں معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیئے ۔‘‘
لیکن کشمیر میں ان وعدوں کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔کشمیر ایک عرصے سے زیادہ خود مختاری، زیادہ اقتصادی ترقی، اور سکیورٹی فورسز کی واپسی پر اصرار کر تا رہا ہے ۔ لیکن کئی عشروں سے ان مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔
ہمالیہ کے سلسلہ ٔ کوہ میں واقع یہ علاقہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بٹا ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا تنازع ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کی اصل وجہ ہے ۔