بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں سرحدی تنازع کی وجہ سے انتہائی مہنگی اور نرم پشمینہ کشمیری اون کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اون جن پشمینہ بکریوں سے حاصل کی جاتی ہے، ان کے ریوڑ سب سے زیادہ لداخ کے اس متنازع علاقے میں پائے جاتے ہیں جہاں ان دنوں بھارت اور چین کی افواج آمنے سامنے ہیں۔
انتہائی بلند، سرد اور آسائشوں سے عاری لداخ میں خانہ بدوش پشمینہ بکریوں کی افزائش کرتے ہیں۔ جن سے حاصل ہونے والی اون کی طلب اور قیمت بہت زیادہ ہے۔
جن بکریوں سے اون کے لیے سوت حاصل کی جاتی ہے، وہ بھارت اور چین میں جاری تنازع کی وجہ سے اپنی چراگاہیں چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ مقامی چرواہوں کا کہنا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران ان بکریوں کے ہزاروں بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
لداخ کے بھارتی علاقے میں پشمینہ اون کی پیداوار کے لیے کام کرنے والی 'پشمینہ گرورز کوآپریٹیو مارکیٹنگ سوسائٹی' کے عہدے دار سونم سیرنگ کا کہنا ہے کہ پشمینہ بکری کا بچہ لگ بھگ تین سال کی عمر میں پشمینہ اون دینا شروع کرتا ہے لیکن ان بچوں کی تعداد میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلو میٹر طویل سرحد پر دونوں ممالک کے فوجی متعدد بار آمنے سامنے آ چکے ہیں کیوں کہ اس سرحد کے بیشتر حصے کی واضح حد بندی نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ لداخ میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جو تاحال جاری ہے۔ بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کی فوج لداخ میں آگے بڑھ رہی ہے۔
سونم سیرنگ کہتے ہیں کہ چین کے آگے بڑھنے کی وجہ سے پشمینہ بکریوں کی چراگاہوں کے لیے روایتی طور پر مخصوص علاقہ ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے۔
بھارت اور چین میں تنازع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رواں برس سردی کے موسم میں کشیدگی کی وجہ سے بھارتی گلہ بانوں کو کاک جونگ، تم سیلے، دمچوک اور کروزوک میں واقع چرا گاہوں کے قریب جانے نہیں دیا گیا تھا۔
لداخ کے ایک مقامی سیاسی رہنما جورمٹ کا کہنا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی پہلے ہمارے علاقوں میں کئی کئی میٹر تک قبضہ کرلیتی تھی لیکن اس بار تو وہ کئی کلومیٹر اندر آ گئے ہیں۔
لداخ کے صدر مقام لیہہ میں مقیم جورمٹ نے کہا کہ یہ وقت بکریوں کی افزائش کا ہوتا ہے۔ رواں برس بکریوں کے 85 فی صد بچے مر چکے ہیں۔ ان کے مرنے کی وجہ ان بکریوں کے ریوڑوں کا اس بار روایتی چرا گاہوں کے بجائے ان علاقوں کی جانب جانا ہے جہاں اب بھی شدید سردی ہے۔
'اے ایف پی' کے مطابق چرواہوں کا کہنا ہے کہ کچھ سال قبل تک سردی کے موسم میں وہ جم جانے والے دریاؤں کو عبور کر کے ان چرا گاہوں تک پہنچ جاتے تھے۔ لیکن اب ان علاقوں پر چین کی فوج کا قبضہ ہے۔
مقامی سیاسی رہنما جورمٹ نے بتایا کہ اب ریوڑ کے رکھوالوں سے رابطہ بھی انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے بھارت کی فوج نے انہیں سیٹلائٹ فون دیے تھے لیکن حالیہ برسوں میں وہ واپس لے لیے گئے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بڑے پیمانے پر پشمینہ بکریوں کی ہلاکتیں آنے والے برسوں میں اس شعبے کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔
خیال رہے کہ لداخ میں پائی جانے والی ان بکریوں سے سالانہ 50 ٹن تک انتہائی اعلیٰ اور مہنگی اون حاصل کی جاتی ہے۔ اس پشمینہ اون سے کشمیر میں ہاتھ سے بنائے گئے کپڑے اور شال بنتے ہیں جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
پشمینہ بکریوں سے حاصل ہونے والے سوت کو اون کی شکل دی جاتی ہے اور عمومی طور پر اس سے شال بنائی جاتی ہیں۔ پشمینہ اون کی شالیں دنیا کے مہنگے ترین اسٹورز پر فروخت ہوتی ہیں۔ ان شالز کی قیمت 800 ڈالرز تک ہوتی ہے۔
خانہ بدوشوں کے قبیلے چنگ پہ کے ایک ہزار خاندان ہر سال گرمیوں کے موسم میں اپنی تین لاکھ کے قریب پشمینہ بکریوں، تبتی بیل اور گھوڑوں کے ہمراہ پانچ ہزار کلومیٹر کی بلندی پر واقع پہاڑی علاقے چانگ تنگ کا رخ کرتے ہیں۔
وہ عمومی طور پر ان کم بلندی والی چرا گاہوں میں جانور چَراتے تھے جو تبت اور دیگر دریائی علاقوں کے ساتھ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں سخت سردی کے مہینوں یعنی دسمبر سے فروری میں درجۂ حرارت منفی 50 ڈگری تک گر جاتا ہے۔
ریوڑ چرانے والے ان خانہ بدوشوں کے لیے بھارت اور چین کا تنازع مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سردیوں میں سخت حالات اور گرمیوں میں خشک موسم کا سامنا کر رہے ہیں۔
مشکلات میں اضافے کے باعث کئی افراد اپنے اس خاندانی کام کو چھوڑ رہے ہیں اور لداخ کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں تاکہ زندگی گزارنے کے لیے نئی راہیں تلاش کر سکیں۔