رسائی کے لنکس

مشرقی لداخ میں چین اور بھارت کشیدگی، اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

چین اور بھارت کے درمیان کئی روز گزر جانے کے باوجود بھی سرحدی کشیدگی میں کمی نہیں آ سکی۔ مسرقی لداخ میں دونوں ملکوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں ایک ماہ سے سرحدی حد بندی کے معاملے پر تعطل برقرار ہے۔

دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں جب کہ فوجی قیادت کے درمیان مذاکرات کے بھی کئی دور ہو چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر بھی رابطہ قائم ہے۔ لیکن تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ فوجیں بظاہر اپنی جگہ سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عارضی سرحد یعنی لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں ملکوں نے اپنی فورسز میں اضافہ کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق دونوں طرف سے بھاری ہتھیاروں کے علاوہ توپیں، گاڑیاں اور بکتر بند حفاظتی گاڑیاں بھی حرکت کرتی دیکھی گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی فوج بھارتی سرحد کے اندر آ گئی ہے اور سرحد پر کم از کم پانچ ہزار چینی جوان تعینات ہیں۔ اب سب کی نظریں بیجنگ میں ہونے والے سفارتی مذاکرات پر مرکوز ہیں۔

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر داخلہ امت شاہ نے چند روز قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ سرحدی تعطل ختم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا بھی کہنا ہے کہ سفارتی اور فوجی سطح پر بات چیت چل رہی ہے اور فریقین مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے سرحد کی صورت حال کو مستحکم اور قابو میں بتایا۔

چین اور بھارت کے درمیان سرحدی معاملات پر کئی دہائیوں سے اختلافات ہیں۔
چین اور بھارت کے درمیان سرحدی معاملات پر کئی دہائیوں سے اختلافات ہیں۔

یاد رہے کہ مشرقی لداخ سیکٹر میں بھارت کی طرف سے ایک سڑک اور پل کی تعمیر پر چین کو اعتراض ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ تعمیر متنازع علاقے میں ہو رہی ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنی سرحد کے اندر کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ دونوں ملکوں میں 3500 کلومیٹر طویل سرحد کی مستقل حدبندی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ سرحدی حد بندی پر دونوں ملکوں کا الگ الگ موقف ہے۔ 1962 میں سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔

بھارت گزشتہ کئی برسوں سے وہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام مقامی آبادی کی سہولت کے لیے کر رہا ہے۔ چین ان سرگرمیوں کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

بھارتی تعمیرات پر چین کے اعتراض کے بعد پانچ اور نو مئی کو دونوں ملکوں کے جوانوں کے درمیان ہاتھا پائی اور مارپیٹ ہوئی تھی جس میں دونوں طرف کے متعدد جوان زخمی ہوئے تھے۔

بھارت کے سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی افواج ایل اے سی پر ایک سے تین کلومیٹر کے اندر بھارت کی سرحد میں آگئی ہیں۔

انہوں نے ایسا کیوں کیا اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ چین، ایل اے سی کو تبدیل کرنا اور آہستہ آہستہ بھارت کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مختلف ایشوز پر چین عالمی سطح پر گھرا ہوا ہے۔ کرونا، تائیوان، ہانگ کانگ سے متعلق معاملات کی وجہ سے وہ مشکلات میں ہے۔

لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد کے بقول چین میں اندرونی معاملات بھی اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اقتصادی حالات خراب ہیں۔ کئی صنعتیں وہاں بند ہو رہی ہیں۔

علاقے میں بھارت کی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
علاقے میں بھارت کی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اُں کے بقول سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بھارت سرحد پر چار پانچ برسوں سے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس سے شاید چین کو لگتا ہے کہ وہاں اس کی بالادستی دن بدن کم ہو رہی ہے۔ اس لیے ان سرگرمیوں کو بند کرانے کے لیے وہ اس قسم کی کارروائی کر رہا ہو۔

شنکر پرساد نے مزید کہا کہ مختلف سطحوں پر بات چیت چل رہی ہے۔ چین کے ساتھ بھارت کا بات چیت کا بہت اچھا میکنزم ہے جس کے تحت بات چیت سے مسئلے کو حل کیا جاتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود فوج اپنا کام نہیں چھوڑ سکتی۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح چین لداخ میں اپنی فوج اور ہتھیاروں میں اصافہ کر رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ وہاں سے جانے والا نہیں ہے۔ بھارت بھی وہاں سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت کی افواج بھی وہاں پہنچ گئی ہیں۔ چین، جتنا آگے بڑھ رہا ہے بھارت بھی بڑھ رہا ہے۔

اس سوال پر کہ اگر یہ معاملہ زیادہ آگے بڑھتا ہے تو اس کا جنوبی ایشیا پر کیا اثر پڑے گا کیوں کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ بھارتی فوج نے 13 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ شنکر پرساد نے کہا کہ اس کا انحصار عالمی سیاست پر ہے اور اس پر ہے کہ دنیا کا رد عمل کیسا ہوتا ہے۔

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر میں ہونے والی سرگرمیاں معمول کی ہیں۔ میں ان کو اس صورت حال سے جوڑ کر نہیں دیکھتا حالانکہ ایسے حالات میں فوج کی نقل و حمل جاری رہتی ہے۔

لیکن اُن کے بقول بھارت کے پاس الگ الگ سیکٹر کے لیے فوجی یونٹس ہیں۔ جموں و کشمیر کے حالات کو یا پاکستان کے حالات کو موجودہ صورت حال سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔

شنکر پرساد نے اس امید کا اظہار کیا کہ بھارت چین تعطل جنگ پر منتج نہیں ہوگا۔ اگر بات چیت سے مسئلہ حل نہیں ہوا تو دیگر ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر جنگ ہوئی تو دونوں طرف زبردست جانی و مالی نقصان ہوگا۔

دریں اثنا امریکی وزیر دفاع مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ چین نے بھارت کے ساتھ لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) پر اپنی فوجوں کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "آمرانہ حکومتیں اس قسم کے اقدامات اٹھاتی ہیں۔"

امریکی ایوانِ نمائندگان میں کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ نے کہا ہے کہ "انہیں بھارت کے خلاف چین کی جارحیت پر تشویش ہے۔"

انہوں نے بیجنگ سے اپیل کی کہ وہ سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے ضابطوں کا احترام اور سفارتی ذرائع اختیار کرے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG