رسائی کے لنکس

امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ، پاکستان کے لیے کتنا خطرہ؟


Trump in india day 01 1
Trump in india day 01 1

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران منگل کو امریکہ اور بھارت نے کئی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے سمیت تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کو بھی حتمی شکل دی ہے. جس کے تحت بھارت امریکہ سے جدید عسکری سازو سامان بشمول اپاچی اور رومیو ہیلی کاپٹرز خرید سکے گا۔

بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی سازو سامان کی فروخت کا معاہدہ ایسے وقت میں طے پایا ہے جب جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔

پاکستان کی طرف سے تاحال امریکہ اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ لیکن اس سے قبل پاکستانی حکام بھارت کی طرف سے جدید دفاعی نظام کے حصول پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی یہ کہہ چکی ہیں کہ بھارت کو جدید ہتھیاروں کے نظام کی فروخت سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار خطہ مزید غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔

ترجمان کے بقول امریکہ کے فیصلے سے جنوبی ایشیا کا اسٹریٹجک توازن خراب ہو سکتا ہے جس کے پاکستان اور خطے کی سلامتی پر مضمرات ہو سکتے ہیں۔

تاہم بین الااقوامی امور کے ماہر نجم رفیق کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان طے پانے والے دفاعی معاہدے کا ان کے بقول پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تجزیہ کار نجم رفیق کے بقول امریکہ اور بھارت کے دفاعی تعلقات کا ایک وسیع تناظر ہے۔ امریکہ بحیرہ ہند اور بحرالکاہل میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر وسوخ کو روکنے کے لیے بھارت کا تعاون چاہتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان دفاعی شعبوں میں ہونے والے تعاون پر اعتراض ضرور کرے گا۔ لیکن پاکستان یہ بھی چاہے گا کہ اسی نوعیت کا معاہدہ امریکہ پاکستان کے ساتھ بھی کرے۔

نجم رفیق کے بقول امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہتری کے باوجود مثالی نہیں ہیں۔ امریکہ کو اب بھی کچھ تحفظات ہیں۔ لہذٰا وہ ایسا دفاعی نظام پاکستان کو نہیں دیں گے۔

تجزیہ کار ہمابقائی کے بقول خطے میں جدید اسلحے کا شامل ہونا، پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ایسا کبھی نہیں کہا گیا کہ یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔

امریکہ کے صدر دو روزہ دورے پر بھارت پہنچے تھے۔
امریکہ کے صدر دو روزہ دورے پر بھارت پہنچے تھے۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے پیش نظر بھارت پاکستان کی سرحد کے قریب یہ ہتھیار نصب کر سکتا ہے۔

تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات پر پاکستان کو تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ اور نہ ہی پاکستان کو خطے میں اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔

نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اتنی ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔

ادھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے دورہ بھارت کے دوران صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیان کو حقیقت پر مبنی قرار دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک روز قبل بھارت کے شہر احمد آباد میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ہمراہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ بڑی پیش رفت کے آ ثار ریکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول ہم کشیدگی میں کمی، استحکام اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے لیے مستقبل میں ہم آہنگی کی توقع کر سکتے ہیں۔

وزیر خارجہ قریشی نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ صدر ٹرمپ نے بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کی تعریف کی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کے بقول جب تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تھی اس وقت پاکستان اور امریکہ کےتعلقات سردمہری کا شکار تھے۔ لیکن افغان امن عمل میں پاکستان کے تعاون سے تعلقات میں بہتری آئی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ خطے میں امن چاہتے ہیں۔ لیکن تنازع کشمیر کا حل ہی خطے میں امن کا ضامن ہے۔

XS
SM
MD
LG