رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کا دورۂ بھارت، کیا کشمیر پر بھارت کے لیے دباؤ بڑھانے کا سبب بنے گا؟


سرینگر (فائل)
سرینگر (فائل)

صدر ٹرمپ چوبیس فروری سے بھارت کا دوروزہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی باتیں اس ماہ کے اواخر تک حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں ۔ ایسے میں کیا صدر ٹرمپ بھارت سے کشمیر کا مسئلہ حل کروانے پر بات کریں گے؟ ۔۔۔۔کیا بھارت اس معاملے پر کسی بین الاقوامی دباو کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا؟ ۔۔۔یا وہ افغانستان کے معاملے میں بھارت سے کسی یقین دہانی اور تعاون کے طلب گار ہونگے۔۔۔۔اس بارے میں ماہرین کی رائے ملی جلی ہے۔

ماہرین کے مطابق ، کشمیر کے معاملے پر بھارت پر بین الاقوامی دباو میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریس نے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران، کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا تھا۔

بھارت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بیان کو بھر پور انداز میں مسترد کر دیا اور اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ کشمیر کا خطہ اس کا لازمی حصہ ہے۔

اسی دوران، ایک برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہمز کو کشمیر کے سلسلے میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے کی وجہ سے بھارت اترتے ہی ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ وہ ای ویزا پر بھارت آ ئی تھیں۔ لیکن، انہیں ایئرپورٹ سے ہی دبئی بھیج دیا گیا جہاں سے وہ آئی تھیں۔ ابراہمز نے جو کہ کشمیر سے متعلق کل جماعتی گروپ کی چیئرپرسن ہیں، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے پر سخت اعتراض کیا تھا۔

حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسلام آباد میں کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی، جس کی بھارت نے مذمت کی۔ بھارتی وزارت خارجہ میں ترکی کے سفیر کو بلا کر ایردوان کے بیان پر سخت اعتراض کیا گیا۔ بھارت نے کہا کہ ترک صدر کا بیان تاریخ سے لاعلمی اور سفارتی آداب کے منافی ہے۔

ان بیانات اور واقعات کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ سے متاثر ہو سکتا ہے؟۔بھارت کا مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں فرسودہ ہو گئی ہیں ، کیونکہ ان کے بعد شملہ سمجھوتہ ہوا اور لاہور اعلامیہ جاری کیا گیا۔ ان دونوں معاہدوں میں پاک بھارت دوطرفہ بات چیت سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی گنجائش نہیں۔

کشمیر کا معاملہ حالیہ دنوں میں اس وقت بھی خبروں میں آیا ، جب واشنگٹن میں ایک تقریب کے دوران امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'چلئے یہ یقینی بنائیں کہ دو جمہوری ملک اس مسئلے کو مختلف طریقے سے نمٹائیں گے۔ اگر آپ ایسا کر سکیں تو یہ جمہوریت کو ثابت کرنے کا بہترین طریقہ ہوگا'. اس پر تقریب میں شریک بھارتی سفیر ایس جے شنکر نے فقرہ چست کیا، ' فکر مت کیجئے سینیٹر، اس مسئلے کو ایک ہی جمہوری ملک حل کرے گا، اور آپ جانتے ہیں وہ کون سا والا جمہوری ملک ہوگا'۔۔

بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس نوک جھونک پر بھارتی سفیر کی ستائش کی گئی۔جبکہ سوشل میڈیا پر کئی امریکیوں نے بھارتی سفیر کی جملے بازی کو نا مناسب انداز سفارتکاری قرار دیا۔

ماہرین کے نزدیک اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ بھارت اپنے موقف میں کسی ردو بدل کو تیار نہیں۔ ایک بھارتی پروفیسر کمل مترا چنائے کہتے ہیں کہ بھارت پر کسی بھی ملک کے دباؤ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ وہی کرے گی جو آر ایس ایس چاہے گی۔

ایک دوسرے بھارتی تجزیہ کار قمر آغا کہتے ہیں کہ ترکی اور ملائیشیا جیسے کچھ ممالک بھارت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔جبکہ بعض آزاد اراکین پارلیمنٹ نے بھی اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کے بقول، کئی لوگوں کا الزام ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، لیکن بھارتی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تردید کرتی ہے۔

قمر آغا کہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی ایجنڈے میں دفعہ 370 کا خاتمہ سرفہرست رہا ہے۔ لہٰذا، دوسری مرتبہ برسر اقتدار آتے ہی اس نے اس دفعہ کو ختم کر دیا۔ اس کا تعلق ضروری نہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے ہو۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے وہائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے ثالثی کے بارے میں کہا ہے۔ لیکن، بھارت نے ان کے اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نے ان سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے۔ بھارت نے ثالثی کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔

امریکی صدر نے یہ پیشکش کئی بار دہرائی تھی اور کہا تھا کہ اگر ان کی کوششوں سے مسئلہ حل ہو جائے تو انھیں خوشی ہوگی۔ اس دوران بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370 ختم کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔اس دوران کشمیر میں رہنے والوں کو بھارت کی طرف سے عائد پابندیوں کے باعث مہینوں پر محیط کرفیو، انٹرنیٹ کی مکمل بندش اور کئی سنگین انسانی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔امریکہ کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر بارہا اظہار تشویش کیا گیا۔ ترکی، ملائیشیا اور بعض ممالک نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی۔ لیکن بھارت نے اسے اپنا داخلی معاملہ قرار دیا اور اپنے اقدامات کو اپنے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر قرار دیا۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورہ بھارت کشمیر کے معاملے میں بھارت پر دباو بڑھانے سے زیادہ افغانستان کے تناظر میں ہو رہا ہے ۔ طالبان کے درمیان کسی امن معاہدے کی صورت میں امریکہ بھارت کو خطے میں اپنے مضبوط پارٹنر اور شراکت دار کے طور پر دیکھنے کا خواہش مند ہوگا، جو امریکی فوج کے افغانستان سے نکلنے کی صورت میں وہاں معاشی شراکت داری ہی نہیں ، سیکیورٹی معاملات میں بھی امریکہ کو تعاون فراہم کرسکے۔ ​

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG