بھارت اور چین نے لداخ سیکٹر تنازع کے حل کے لیے مذاکرات جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
اس سلسلے میں ہفتے کو دونوں ممالک کی لیفٹننٹ جنرلز کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ دونوں ممالک نے کشیدگی کم اور تعطل ختم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ یہ بات چیت چین کی سرحد میں واقع چوسولو مولڈو میں ہوئی۔
مذاکرات کے ایک روز بعد اتوار کو بھارت کی وزارت خارجہ نے باضابطہ جاری بیان میں کہا کہ دونوں ملک سرحدی علاقوں میں جاری تعطل پُر امن انداز میں حل کرنے پر رضامند ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کو ہونے والی بات چیت خوش گوار اور پُر امن ماحول میں ہوئی ۔ بیان کے مطابق باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے سرحد پر امن و استحکام ضروری ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت اور چین حالیہ ہفتوں میں سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے مقررہ سفارتی اور فوجی چینلز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فریقین نے دو طرفہ معاہدوں کے مطابق سرحدی علاقوں کی صورت حال کو پُر امن انداز میں حل کرنے پر اتفاق کیا۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور مجموعی ترقی کے لیے بھارت اور چین کے سرحدی علاقوں میں امن و استحکام ضروری ہے۔
ذرائع کے مطابق ہفتے کو تین گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں بھارت نے سرحد پر اپریل 2020 والی صورت حال کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ جب کہ چین نے کہا کہ بھارت سرحد پر اپنی تعمیرات روک دے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں فریق مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارتی و فوجی سطح پر بات چیت جاری رکھیں گے۔ تاہم اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
چین کی فوج بھارتی اہلکاروں کو گشت کے لیے آگے بڑھنے نہیں دے رہی
یاد رہے کہ ایک ماہ سے دونوں ممالک میں سرحدی کشیدگی جاری ہے۔ پینگونگ سو جھیل کے پاس واقع علاقوں فنگر 4 اور فنگر 8 کے سلسلے میں زیادہ تنازع ہے۔ اپریل سے قبل بھارتی فوج فنگر 8 تک گشت کرنے جاتی تھی۔ اب چینی فوج بھارتی فوج کو فنگر 4 سے آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔
بھارت نے سرحد پر ایک پل اور سڑک کی تعمیر شروع کی ہے جس پر چین کو اعتراض ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ وہ یہ تعمیرات اپنی سرحد کے اندر کر رہا ہے اور اس سے مقامی آبادی کو سہولتیں حاصل ہوں گی۔
رپورٹس کے مطابق مئی کی 5 اور 9 تاریخ کو دونوں ممالک کے فوجی جوانوں میں تصادم کے نتیجے میں متعدد فوجی زخمی ہوئے تھے۔ اس دوران چینی فوجی بھارتی سرحد میں کافی اندر تک گھس آئے تھے۔
بھارت کی جانب سے سرکاری سطح پر باضابطہ طور پر اس کا اعتراف نہیں کیا گیا لیکن چند روز قبل وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بیان دیا تھا کہ چینی فوج خاصی تعداد میں سرحد پر جمع ہو گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے پینگونگ سو اور گلوان وادی میں 2500 فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں۔
خارجہ امور کے ماہر اور سینئر صحافی خاور حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ سرحد پر ایک ماہ سے کشیدگی جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مسئلے کو بڑھانا نہیں چاہتا۔
ان کے بقول چینی قیادت کو اندرونی سطح پر کچھ چیلنجز کا سامنا ہے تاہم چین بھی کشیدگی کو کم یا ختم کرنے کے حق میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت بھی تعطل کو ختم کرانا چاہتی ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ چینی فوج پہلے جہاں تھی اسی مقام پر واپس چلی جائے۔
ان کے مطابق بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے کافی گرما گرم بحث جاری ہے جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت چین سے کہیں زیادہ طاقتور ہے لہٰذا اسے چین کو سبق سکھانا چاہیے۔ اگر میڈیا میں جاری بحث کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ بس جنگ ہونے ہی والی ہے۔
خاور حسن کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا پاکستان کے بارے میں بھی ایسی ہی رپورٹنگ کرتا رہا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔