رسائی کے لنکس

اٹل ٹنل جیسے منصوبوں کی عجلت میں تکمیل بھی چین کے ساتھ کشیدگی کا سبب ہے، تجزیہ کار


بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش میں لہہ منالی ہائی وے پر اٹل ٹنل کے داخلی راستے پر مزدور کام کر رہے ہیں۔(رائٹرز)
بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش میں لہہ منالی ہائی وے پر اٹل ٹنل کے داخلی راستے پر مزدور کام کر رہے ہیں۔(رائٹرز)

بھارت نے تین ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر ہمالیہ پہاڑوں کے نیچے کئی دہائیوں سے جاری کھدائی کے بعد نو کلومیٹر لمبی سرنگ کی تعمیر مکمل کر لی ہے جس کے بعد لداخ جانے کا راستہ برف پوش پہاڑی دروں کو بائی پاس کرتے ہوئے 46 کلومیٹر کم ہو گیا ہے۔

لداخ میں بھارتی اور چینی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔

اٹل سرنگ کہلائی جانے والی اس سرنگ کے ذریعے بھارت تیزی کے ساتھ فوجی نفری اور ساز و سامان لداخ پہنچا سکے گا، جہاں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کسی بھی وقت شدت اختیار کر سکتا ہے۔

سرنگ کا افتتاح کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ملک کی حفاظت کرنے والی فوجوں کی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے چین کے ساتھ شمالی سرحدی علاقے میں رابطے کے لئے سڑکوں پر مشتمل ڈھانچے کی تعمیر میں عجلت بھی چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا سبب ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان لداخ میں یہ کشیدگی چھ ماہ سے جاری ہے۔

اٹل سرنگ کی تعمیر میں کئی برس کا عرصہ لگا ہے۔ تاہم بھارت اب اس علاقے میں دیگر سڑکوں، پلوں اور جہازوں کے رن ویز کی تعمیر میں تیزی کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے اور سرحد کے پار چینی علاقے میں پہلے سے موجود سڑکوں کے جال اور جہازوں کے رن ویز کے حوالے سے بھارتی علاقے میں موجود فرق کو کم کرنا اور سال کے تمام موسموں کے دوران لداخ میں فوجی نفری اور فوجی ساز و سامان کی رسائی برقرار رکھنا بھارت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

چین نے لداخ کے علاقے میں بھارت کی طرف سے تیز رفتار تعمیرات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لداخ کے مرکزی علاقے پر بھارت کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین بھارت کی طرف سے متنازع علاقے میں اپنے فوجی کنٹرول کے لئے تعمرات کی شدید مخالفت کرتا ہے۔

تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ وہ یہ تعمیرات بھارتی علاقے کے اندر کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG