رسائی کے لنکس

واشنگٹن: غزہ جنگ پر شدید احتجاج کے درمیان اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کانگریس سے خطاب


اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو 24 جولائی کو امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے۔ فوٹو رائٹرز۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو 24 جولائی کو امریکی کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے۔ فوٹو رائٹرز۔

  • اسرائیلی وزیرِ اعظم نے بدھ کو امریکی کانگریس سے خطاب میں غزہ میں جاری اسرائیل کی جنگ کا دفاع کیا.
  • ان کی امریکی دارالحکومت میں انکی آمد کے بعد سے غزہ جنگ اور وہان دربدر ہوجانے فلسطینیوں کی حالت زار پر احتجاج بدھ کو انکی تقریر کے دوران جاری رہا۔
  • متعدد ممتاز ڈیموکریٹس نے ان کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔
  • نیتن یاہو نے تلخی کے ساتھہ امریکہ میں غزہ جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر موجود مخالفت کی شدید مذمت کی۔
  • انہوں نے اپنی تقریر میں صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ کی تعریف کی۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کو امریکی کانگریس سے اپنے ایک سخت خطاب میں غزہ میں جاری اسرائیل کی جنگ کا دفاع کیا اور ان امریکی مظاہرین کے احتجاج کی مذمت کی جس کی وجہ سے بہت سےممتاز ڈیموکریٹک قانون سازوں نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور ہزاروں مظاہرین غزہ جنگ اور اس سے ہونے والے انسانی بحران کی مذمت کے لیے دارالحکومت میں موجود ہیں۔

غزہ میں جنگ کے نو ماہ بعد، نیتن یاہو نے "مکمل فتح" تک جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا۔ انہوں نے حماس اور ایران کے حمایت یافتہ دیگر مسلح گروپوں کے خلاف اپنے ملک کی لڑائی میں امریکہ کی حمایت کو تقویت دینے کی بھی کوشش کی۔

انہوں نے تلخی کے ساتھہ امریکہ میں غزہ جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر موجود مخالفت کی شدید مذمت کی۔

واشنگٹن میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرے۔فوٹو رائٹرز
واشنگٹن میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرے۔فوٹو رائٹرز

نیتن یاہو، جنہوں نے حماس کی حراست میں اسرائیلی یرغمالوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے زرد رنگ کی پن لگائی ہوئی تھی کہا۔"امریکہ اور اسرائیل کو ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جب ہم ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو درحقیقت سب کچھ آسان ہوتا ہے: ہم جیت جاتے ہیں، وہ ہار جاتے ہیں۔"

نیتن یاہو کی تقریر نے اس وقت مختلف لہجہ اختیار کرلیا جب انہوں نے اپنے ملک کا دفاع کیا لیکن ان مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو ان کی تقریر کے وقت ایوان کے باہر ہو رہے تھے۔ انہوں نےجنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا مذاق اڑااتے ہوئے، انہیں اسرائیل کے مخالفین کو فائدہ پہنچانے والے احمقوں سے تعبیر کیا۔

احتجاج

کیپیٹل کے قریب ہونے والے کچھ مظاہرے افراتفری میں بدل گئے جن میں چند سو گز کے فاصلے پر سخت حفاظتی انتظامات والا کیپیٹل گراؤنڈشامل تھا۔ قریبی واقع یونین سٹیشن کے باہر مظاہرین نے امریکی پرچم سرنگوں کردیے اور فلسطینی پرچم بلند کیے۔ کیپیٹل کے آس پاس کی سڑکوں پر موجود سیکیورٹی اہل کاروں کی مظاہرین کے ساتھ تکرار ہوئی جس میں مظاہرین کے خلاف ڈنڈوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

تقریر کے دوران ایوان میں ردعمل

ایوان میں بہت سے حاضرین نے انکے لیے تالیاں بجائیں، لیکن سرکردہ ڈیموکریٹس نے نہ تو تالیاں بجائیں اور نہ ہی کھڑے ہوئے ۔

نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ امریکہ میں جنگ کے مخالف مظاہرین عسکریت پسندوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

حماس کے رہائی پانے والے سابق یرغمالوں اور ان کے خاندانوں نے ایوان میں نیتن یاہو کی تقریر سنی۔

دونوں امریکی پارٹیوں کے قانون ساز، اسرائیلی رہنما کو سراہنے کے لیے بار بار ا ٹھ کر کھڑے ہوئے، جب کہ سیکیورٹی نے گیلری میں موجود ان مظاہرین کو باہر نکال دیا جو ایسی ٹی شرٹس کی نمائش کر رہے تھے جن پر ، رہنما ؤں سے جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے کرنے، اور تمام یرغمالوں کی رہائی کے مطالبوں پر مبنی نعرے لکھے تھے۔

ایوان میں مشی گن کی ڈیموکریٹک نمائندہ رشیدہ طلیب نے، جو رو رہی تھیں ایک بینر تھام رکھا تھا جس پر لکھا تھا "جنگی مجرم"۔

نیتن یاہو نے امریکہ میں جنگ کے مخا لف متعدد مظاہرین پر ان عسکریت پسندوں کا ساتھ دینے کاالزام لگایا جنہوں نے ان کے بقول، 7 اکتوبر کو حماس کے حملے میں ننھے بچوں کو ہلاک کیا تھا ۔ " انہوں نے کہا کہ،’’یہ مظاہرین جو ان کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں خود پر شرم آنی چاہیے۔‘‘

اب جبکہ اسرائیل میں بھی نیتن یاہو کے خلاف تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے انکا یہ مقصد بھی ہے کہ وہ خود کو ایک ایسے سیاستدان کے طور پر پیش کریں جسے اسرائیل کے سب سے اہم اتحادی، امریکہ کا احترام حاصل ہے۔

ان کا کام اسرائیل اور جنگ کے بارے میں امریکیوں کےبڑھتے ہوئے منقسم خیالات کی وجہ سے پیچیدہ ہو گیا ہے، جو امریکی صدارتی انتخابات میں ایک اہم مسئلےکے طور پر سامنے آیا ہے۔

نیتن یاہو کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے چار مرتبہ خطاب کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما بن گئے ہیں۔

نیتن یاہو کی تقریر کا پچاس سے زیادہ ڈیموکریٹس اور آزاد سینیٹر برنی سینڈرز نے بائیکاٹ کیا۔ سب سے زیادہ قابل ذکر غیر حاضری نائب صدر کاملا ہیرس کی تھی جو سینیٹ کی صدر کے طور پر کام کرتی ہیں، جنہوں نے کہا کہ ایک بہت پہلے سے طے شدہ دورےکی وجہ سے وہ اس مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکیں۔

ریپبلکنز کا کہنا تھا کہ صدارت کے لیے نئی ڈیموکریٹک فرنٹ رنر کاملا ہیرس کی عدم موجودگی ایک اتحادی کے ساتھ بے وفائی کی علامت ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رننگ میٹ، جے ڈی وینس، بھی انتخابی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے نیتن یاہو کی تقریر کے لیےوہاں موجود نہیں تھے۔

اسرائیل کی حمایت طویل عرصے سے امریکی سیاست میں سیاسی وزن رکھتی ہے۔ لیکن اس بار نیتن یاہو کے لیے معمول کی گرمجوشی میں سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سےکمی آئی ہے جس میں ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملہ اور بائیڈن کے دوسری میعادسے دستبردار ہونے کا فیصلہ شامل ہے۔

بہت سے ڈیموکریٹس جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں لیکن نیتن یاہو پر تنقید کرتے رہے ہیں اس خطاب کو ایک ایسی ریپبلکن کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں جو خود کو سب سے زیادہ وفادار پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی ہے ۔

نیتن یاہو پر تنقید کے باوجود بہت سے ڈیموکریٹس نے اس خطاب میں شرکت کی، جن میں سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومربھی شامل تھے۔ انہوں نے مارچ میں ایوان میں تقریر کرتے ہوئےاسرائیل میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا۔

نیویارک سے تعلق رکھنے والےشومر نے اس وقت کہا تھا کہ نیتن یاہو "اپنے راستے سے بھٹک چکے ہیں۔" اور یہ کہ غزہ میں انسانی بحران کے دوران وہ خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

امریکہ اسرائیل کا سب سے اہم اتحادی، اسلحہ فراہم کرنے والا اور فوجی امداد کا ذریعہ ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سےنیتن یاہو کا یہ پہلا بیرون ملک دورہ ہے، اور یہ ایسے میں ہو رہا ہے جب ان کے خلاف انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف مبینہ اسرائیلی جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ کی کوشش کیے جانے کے سائے منڈلا رہے ہیں ۔ امریکہ آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتا۔

یتن یاہو نے جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے مہینوں کی امریکی قیادت میں ثالثی کا کوئی براہ راست ذکر نہیں کیا۔ ان کا بیان اگرچہ جارحانہ تھا تاہم وہ کسی معاہدے پر دروازہ بند کرتے نہیں دکھائی دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ "اسرائیل اس وقت تک لڑے گا جب تک ہم حماس کی فوجی صلاحیتوں اور غزہ میں اس کی حکمرانی کو ختم نہیں کر دیتے اور اپنے تمام یرغمالوں کو گھر واپس نہیں لاتے۔" مکمل فتح کا یہی مطلب ہے۔ اور ہم اس سے کچھ بھی کم پر اکتفا نہیں کریں گے۔

بائیڈن ٹرمپ ۔ نیتن یاہو

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے دورے کو جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی تکمیل میں مدد پر مرکوز دیکھنا چاہتی ہے۔ اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نیتن یاہو پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ جنگ کو طول دے رہے ہیں تاکہ تنازعہ ختم ہونے پر وہ اقتدار سے اپنے ممکنہ زوال سے بچ سکیں۔

نیتن یاہو نےجو اکثر امریکہ میں قدامت پسند اور ریپبلکن کازز کے حق میں ہوتے ہیں، اپنی تقریر کا آغاز صدر جو بائیڈن کی تعریف کے ساتھ کیا۔ لیکن انہوں نے سابق صدر اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو "انہوں نےسرائیل کے لیے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے" بھرپور انداز میں سراہا۔

نیتن یاہو جمعرات کو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس سے اور جمعہ کو مار-ا لاگو میں ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

امریکی یرغمالوں کے خاندانوں کا ردعمل

غزہ میں قید امریکی یرغمالوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ نیتن یاہو کی تقریر سے "شدید مایوس" ہوئے ہیں۔ ایک مشترکہ بیان میں ان خاندانوں نے کہا کہ وہ "یرغمالوں کے بارے میں اس معاہدے پر کوئی وعدہ کرنے میں ناکام رہے جو اب میز پر ہے باوجود اسکے کہ اسرائیل کے اعلیٰ دفاعی اور انٹیلیجنس عہدے داروں نے ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔"

خیال کیا جاتا ہے کہ آٹھ امریکی حماس کے قبضے میں ہیں جن میں سے تین مارے گئے تھے۔

تقریر کا بائیکاٹ کرنے والی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے نیتن یاہو کی تقریر کو "کانگریس سے خطاب کرنےکے لیے مدعو کیے گئے کسی بھی غیر ملکی معزز شخصیت کی جانب سے "بدترین پریزینٹیشن" قرار دیا۔

کچھ ڈیموکریٹس نیتن یاہو کے بارے میں محتاط ہیں کیونکہ انہوں نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے 2015 میں اپنے خطاب کو استعمال کرتے ہوئے اس وقت کے صدر براک اوباما کے ایران کے ساتھ زیر التواء جوہری معاہدے کی مذمت کی تھی۔

نیتن یاہو نے اس سے قبل بدھ کی صبح، سابق سینیٹر جو لیبرمین کی یادگار پر خطاب کرتے ہوئے ایران، اس کے جوہری پروگرام اور مسلح اتحادیوں کے اس کے نیٹ ورک پر توجہ مرکوز کی۔

انہوں نے کہا ایران "دہشت گردی کے پورے محور کے پس پشت ہے،" جو امریکہ اور اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔

یہ رپورٹ اے پی کی اطلاعات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG