رسائی کے لنکس

پاکستان میں 'ڈیجیٹل دہشت گردی' کے چرچے، کیا اس طرح کی کوئی دہشت گردی وجود رکھتی ہے؟


  • پاکستان فوج کے ترجمان نے یپر کو پریس کانفرنس کے دوران ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
  • مبصرین کے مطابق ڈیجیٹل ٹیررازم کو روکنے کے لیے پیکا قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے۔
  • ملزم کے خلاف پیکا قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے: مبصرین
  • پیکا قوانین میں ایسا نہیں لکھا کہ کسی مخصوص ادارے کے خلاف ہی ڈیجیٹل دہشت گردی ہو سکتی ہے: مبصرین

لاہور _ پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کی جس کے بعد ملک کے سیاسی، سماجی اور دیگر حلقوں میں اس اصطلاح پر بحث شروع ہو گئی ہے۔

فوجی ترجمان نے خودساختہ 'ڈیجیٹل دہشت گردی' کی اصطلاح کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح دہشت گرد ہتھیار سے بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسی طرح ڈیجیٹل دہشت گرد منفی پراپیگنڈا اور جھوٹی خبریں (فیک نیوز) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، موبائل اور کمپیوٹرز کے ذریعے پھیلا کر اضطراب سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ نے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ 'ڈیجیٹل دہشت گردی' کیا ہے اور اگر اس طرح کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو یہ کون کرتا ہے اور اِس سے کن اہداف کا حصول ہو سکتا ہے جب کہ اِسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

انفارمیشن ٹیکنالوجی برآمد کرنے والی نجی کمپنی ’پی این وائے گروپ‘ کے چیف ایگزیکٹو افسر عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیررازم سائبر کرائم کی ایک اپ ڈیٹڈ اصطلاح ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جیسے ہتھیاروں سے دہشت گردی کی جاتی ہے۔ آئی ٹی کی دنیا میں یہ بغیر ہتھیاروں یعنی ویپن لیس دہشت گردی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا، ویب سائٹس اور کوئی بھی ایسا پلیٹ فارم جو ڈیجیٹل کہلاتا ہے وہاں کسی فرد، ادارے یا حکومت کے خلاف ایسی پوسٹس یا انفارمیشن لگائی جا رہی ہوں جو اُس کے خلاف ہوں وہ ڈیجیٹل ٹیررازم کہلائے گی۔

فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جو ہو رہا ہے یہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہے۔ 'ڈیجیٹل دہشت گردوں' کا پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس ملک سے آپریٹ کر رہے ہیں۔

اِس سے قبل ڈیجیٹل ٹیررازم کی اصطلاح رواں برس مئی میں پاکستان کی فوج کے کور کمانڈرز اجلاس میں بھی استعمال کی جا چکی ہے جس میں اِس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔

کور کمانڈرز کے اِس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی قیادت اور ادارے پر تنقید کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

فوجی ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس اور اس سے قبل کور کمانڈرز کی کانفرنس کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا "کیا کسی معاملے پر سوال اُٹھانا 'ڈیجیٹل دہشت گردی' ہے؟ جو لوگ سرحد پر اسمگلنگ میں ملوث ہیں، انہیں کیوں نہیں پکڑا جا رہا۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ پیٹرولیم مصنوعات کیوں اور کیسے اسمگل ہو رہی ہیں؟"

الیکٹرانک جرائم کے سدِ باب کے لیے "فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی" (ایف آئی اے) موجود ہے جو ایسے جرائم میں ملوث افراد کو عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلواتی ہے۔

ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ باجوہ 'ڈیجیٹل دہشت گردی؛ کی اصطلاح کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ "ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کر کے عام لوگوں، اداروں یا شخصیات پر حملے کیے جائیں اور خوف پھیلایا جائے تو وہ ڈیجیٹل ٹیررازم (ڈیجیٹل دہشت گردی) کہلائے گی اور یہ سائبر کرائم بھی ہے۔"

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ہی ایسی دہشت گردی کو روکنے کے لیے کام کرتا ہے جس کے لیے سائبر کرائم ونگ میں ہی ایک الگ ٹیم کام کرتی ہے۔

آئی ٹی کمپنی پی این وائے گروپ کے سی ای او عبدالوہاب کے مطابق ڈیجیٹل ٹیررازم کی اصلاح پوری دنیا میں استعمال کی جاتی ہے۔ ہر ملک میں اِس پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ امریکہ نے اِس میں بہت پہلے کام شروع کر دیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ فیس بک، ایکس اور انسٹاگرام سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ایک مخصوص ٹیم اِس پر کام کرتی ہے جو مختلف چیزوں کی جانچ پڑتال کرتی رہتی ہے۔

ان کے بقول یہ ٹیم اپنے مخصوص الفاظ (کی ورڈز) سے ڈیجیٹل ٹیررازم کرنے والوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اُسامہ بن لادن کے الفاظ لکھتا ہے تو وہاں پر بیٹھی ٹیمیں اِس پر متحرک ہو جاتی ہیں کہ کس شخص نے یہ الفاظ لکھے۔ اِس کے پیچھے اِس کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔ الفاظ لکھنے والے شخص کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اُسے حراست میں بھی لیا جاتا ہے۔

'حکومت نے تجرباتی کام شروع کر دیے'

پی این وائے کے سی ای او کے مطابق پاکستان کی حکومت نے بھی تجرباتی طور پر یہ کام شروع کر دیے ہیں۔ گزشتہ دِنوں پاکستان میں واٹس ایپ کی سروسز سست ہوئی ہیں جس میں حکومت نے ایک مخصوص سافٹ ویئر کے ذریعے ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جو ڈیجیٹل ٹیررازم میں ملوث ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِس تجرباتی مشق کے دوران حکومت نے ایسے افراد تک رسائی حاصل کی جو کسی ادارے اور شخصیات کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تشہیر کر رہے تھے۔ جنہیں مستقبل میں حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے اپنی گفتگو میں اس حوالے استعمال کیے گئے سافٹ ویئر کی تفصیلات یا اپنے دعوے کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔

سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد مصطفٰی باجوہ کی رائے میں پاکستان میں یہ اصطلاح بہت کم استعمال ہوئی ہے۔ البتہ یہ اصطلاح نئی نہیں ہے۔

ڈیجیٹل ٹیررازم کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ڈیجیٹل دہشت گرد فوج اور اُس کی قیادت کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں قانون کے تحت روکا جا سکتا ہے۔

سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد مصطفیٰ باجوہ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل ٹیررزام میں جس بھی جرم کے شواہد ایف آئی اے کے پاس آئیں گے اُسے اُس کے مطابق دیکھا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے میں اِس سلسلے میں سائبر کرائم ونگ اور کاونٹر ٹیررازم ونگ (سی ٹی ڈبلیو) متحرک ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈبلیو سائبر کرائم اور ڈیجیٹل کرائم دونوں کی تفتیش کرتا ہے۔

پی این وائے کے سی ای او عبدالوہاب کے مطابق پاکستان کی حکومت کے پاس بھی ایسے آلات آ گئے ہیں جو کسی بھی شخص کو گرفت میں لے سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص فیس بُک سمیت کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خلافِ قانون کچھ کرتا ہے تو تحقیقاتی ادارے آئی پی، پتا اور دیگر ذرائع سے اُس شخص تک پہنچ سکتے ہیں۔

اُن کے بقول اگر کوئی شخص مختلف ناموں سے کوئی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز چلاتا ہے تو اُس شخص کے تمام اکاؤنٹ کھل کر سامنے آ جائیں گے اور اُس شخص کی تمام پروفائلز اور لوکیشن کا بھی پتا چل جائے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سجاد باجوہ نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کی تفتیش میں سب سے مشکل مرحلہ ثبوتوں اور شواہد جمع کرنا ہوتا ہے جب بھی کوئی ملزم ڈیجیٹل کرائم کرتا ہے تو اُس شخص کے زیرِ استمال ڈیجیٹل اور الیکٹرانک چیزیں تحویل میں لے لی جاتیں ہیں۔ ان میں عمومی طور پر لیپ ٹاپ، موبائل فون اور دیگر اشیاء شامل ہوتی ہیں جن کی فرانزک رپورٹ تیار کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر ایف آئی اے اپنی تفتیش آگے بڑھاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کے مقدمات کی تفتیش میں سروس مہیا کرنے والی ایجنسیوں سے بھی ثبوت اور شواہد جمع کیے جاتے ہیں۔

اُن کے بقول اگر کوئی جرم فیس بک یا ایکس (ٹوئٹر) پر ہوا ہے تو ان کمپنیوں سے ملزم کے اکاونٹ تک رسائی لینی پڑتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تمام سروسز مہیا کرنے والی کمپنیاں آسانی سے کسی بھی شخص کے اکاؤنٹ تک رسائی نہیں دیتیں۔ ایسا کرنے کے لیے عدالت سے اجازت لی جاتی ہے۔ عدالتی حکم کو اُس سروس مہیا کرنے والی کمپنی کو بھجوایا جاتا ہے جو جرم کی قسم اور شدت کو دیکھ کر شواہد دیتی ہے۔

ڈیجیٹل دہشت گردی صرف دفاعی اداروں کے خلاف ہوتی ہے؟

سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد مصطفیٰ باجوہ کی رائے میں ایف آئی اے قوانین اور خاص طور پر پیکا قوانین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی مخصوص ادارے کے خلاف ہی ڈیجیٹل دہشت گردی ہو سکتی ہے اور دیگر کے خلاف نہیں ہو سکتی۔

ان کے بقول کسی بھی ادارے پر ڈیجیٹل ذرائع سے حملے کیے جا سکتے ہیں۔

عبد الوہاب کی رائے میں اُن کی معلومات کے مطابق ڈیجیٹل ٹیررازم کی اصطلاح حکومت، اداروں اور دفاعی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔

سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد مصطفیٰ باجوہ بتاتے ہیں کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کو روکنے کے لیے پاکستان میں قوانین موجود ہیں۔ ایسے جرائم کو پیکا قوانین کے تحت روکا جاتا ہے اور ملزم کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کا جرم ثابت ہونے پر کسی بھی ملزم کو عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

نجی آئی ٹی کمپنی پی این وائے کے سی ای او عبد الوہاب کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے سائبر قوانین کو بہتر کیا ہے جس میں وہ ڈیجیٹل ٹیررازم کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کر سکیں گے۔

ڈیجیٹل ٹیررازم سے قبل پاکستان میں ٹیرر فنانسنگ کی اصطلاح بھی استمال ہو چکی ہے جس کے تحت دہشت گردوں کی مبینہ مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG