رسائی کے لنکس

میں آپ سب سے عمر میں بڑا ہوں، مجھے خوف آ رہا ہے کہ ہم اندھیرے کی طرف جا رہے ہیں: عمران خان


عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس پر دلائل دیے۔ فائل فوٹو
عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس پر دلائل دیے۔ فائل فوٹو
  • تقریباً چھ گھنٹوں تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران عمران خان کو صرف آدھ گھنٹہ ہی سماعت میں شامل ہونے کا موقع ملا۔
  • عمران خان نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ نیب کا سربراہ سپریم کورٹ تعینات کرے۔ جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمنٹ یہ قانون بنا دے۔
  • جسٹس اطہر نے کہا کہ خان صاحب ان ترامیم سے کیس ختم نہیں ہوں گے بلکہ دیگر عدالتوں کو منتقل ہو سکتے ہیں۔
  • جسٹس جمال نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا نیب ٹھیک ہے؟ اسے ٹھیک کرنا عدالت کا کام ہے یا پارلیمنٹ کا؟
  • چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کرپشن اور منی لانڈرنگ ڈسکس کر رہے ہیں لیکن آپ نے ایمنسٹی کیوں دی۔

اسلام آباد۔۔۔ عمران خان بار بار سیاسی معاملات پر جا رہے تھے اور عدالت انہیں واپس کھینچ کر صرف نیب ترامیم کیس پر لا رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ عمران خان کو روکیں گے، لیکن یہ ذمہ داری دیگر ججز نے سنبھال لی اور عمران خان کو سیاست پر کم سے کم بات کرنے دی گئی۔

عدالت کے اندر صبح سے سی گرین کلر کا کرتہ پہنے عمران خان عدالت میں موجود تھے۔ تقریباً چھ گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران عمران خان کو صرف آدھ گھنٹہ ہی سماعت میں شامل ہونے کا موقع ملا، عمران خان سیاسی موضوعات پر بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن ججز نے انہیں اس کا موقع کم سے کم دیا مگر عمران خان اپنی بات کہتے رہے۔

دوپہر کو وقفہ کے بعد عمران خان کو بات کرنے کا موقع دیا گیا تو چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ عمران خان صاحب آپ ہمیں سن سکتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں آپ کو سن سکتا ہوں۔

عمران خان نے آغاز کیا اور کہا کہ سب سے پہلے میں وضاحت دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے آخری سماعت کے حکم نامہ میں لکھوایا کہ میں نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی۔ آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا۔ میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔ اس پر چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُس درخواست پر فیصلہ ہو چکا ہے اور اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو نظرثانی درخواست دائر کر دیں۔ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، لہذا آپ صرف کیس پر رہیں اور بات کریں۔

اس کے بعد عمران خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ اصل میں ڈیپنڈ یہ کرتا ہے کہ نیب کو ہیڈ کون کر رہا ہے۔ میرا کیس تھا کہ توشہ خانہ میں ایک کروڑ 80 لاکھ کی گھڑی تھی جسے تین ارب کا بنا دیا گیا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ خواجہ حارث نے بہت تفصیل کے ساتھ ہمیں بتایا ہے۔ ہمارے سامنے نیب قانون زیر سماعت ہے۔ نیب کا کردار ہمارے سامنے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب مسلسل مس یوز ہو رہا ہے۔ کل آپ پارلیمان میں آئیں اور اس بارے میں قانون بنا لیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ نیب کا سربراہ سپریم کورٹ تعینات کرے۔ جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمنٹ یہ قانون بنا دے۔

عمران خان نے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے اعداد و شمار دیے تو جسٹس جمال ایک بار پھر بولے کہ نیب کی عدالتوں میں ہزاروں کیسز زیر التوا ہیں۔ جب فیصلے تاخیر سے ہوں گے تو ریکوریاں بھی دیر سے ہوں گی۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ہاں موریلٹی پر بات نہیں کی جاتی۔ ان ترامیم سے ان سیاست دانوں کو فائدہ ہوا جنہوں نے یہ قانون بنایا ہے۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ خان صاحب ان ترامیم سے کیس ختم نہیں ہوں گے بلکہ دیگر عدالتوں کو منتقل ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ کو عدالتوں پر اعتماد نہیں؟ جس پر عمران خان نے کہا کہ 5 دنوں میں تین کیسز میں سزائیں سنا دی گئیں ایسے میں کیا عدالتوں پر اعتماد ہو گا؟

کمرہ عدالت میں موجود عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان موجود تھیں جو تمام سماعت کو غور سے سن رہی تھیں۔

عمران خان نے اقوام متحدہ کی غربت کے حوالے سے رپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ 17 سو ارب ڈالر غریب ممالک کے باہر بھیج دیے جاتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کی وجہ سے ہی ملک غریب ہو جاتے ہیں۔

جسٹس جمال نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا نیب ٹھیک ہے؟ اسے ٹھیک کرنا عدالت کا کام ہے یا پارلیمنٹ کا؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ پارلیمان نیب کو ختم کر دیتی ہے تو کیا بہتر ہو گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا خان صاحب آئین کے مطابق ہمارا ایک رول ہے۔ آئین کو تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔

عمران خان نے ایک بار پھر ملک میں موجود کرپشن پر بات کی تو جسٹس جمال نے کہا کہ عمران صاحب آپ سب مل کر آگ بجھائیں۔ یہ نہ دیکھیں کہ پانی پاک ہے یا نہیں۔ فی الحال آگ بجھائیں۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ میرے ہاتھ بندھے ہیں مجھے سزائیں دے کر اندر کر رکھا ہے۔

اس موقع پر عمران خان نے تمام ججز سے مخاطب ہو کر کہا کہ پوری قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی جمہوریت نہیں اور غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کیوں آخری سٹیج بنا رہے ہیں؟ ہم بھی اگر فیل ہو گئے تو کیا ہو گا؟

اس پر عمران خان نے کہا کہ میں آپ سب سے عمر میں بڑا ہوں۔ مجھے خوف آ رہا ہے کہ ہم اندھیرے کی طرف جا رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، ملک کو کچھ ہوا تو ہم نہیں آپ ذمہ دار ہوں گے۔

جسٹس حسن اظہر نے کہا جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں تھا تو آپ باہر کیوں نکل گئے۔ آپ کے ارکان ایوان میں موجود تھے۔ آپ پارلیمنٹ میں رہ کر مقابلہ کرتے۔

عمران خان بولے کہ 6 فیصد کی جی ڈی پی پر جانے والی حکومت کو ہٹا دیا گیا تو ایسی پارلیمنٹ میں ہم کیا جاتے۔

عمران خان نے چیف جسٹس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہئے تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ جا کر ملیں اور بیٹھ کر بات کریں۔ یہ دشمن نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہم نے صدر اور الیکشن کمیشن کو آپس میں بات کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ہم سیاسی بات کرنا نہیں چاہتے تھے اور آپ کو روکنا بھی نہیں چاہتے تھے تاکہ کوئی اعتراض نہ ہو۔ چیف جسٹس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاست دان آپس میں مل کر بیٹھیں اور مسائل کو حل کریں‘۔ اس پر پی پی کے وکیل نے بتایا کہ پیپلزپارٹی ہر جماعت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کرپشن اور منی لانڈرنگ ڈسکس کر رہے ہیں لیکن آپ نے ایمنسٹی کیوں دی۔ جس بات کی آپ مخالفت کر رہے اسی کو آپ نے سپورٹ کیا۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ ایمنسٹی اس وجہ سے دی تھی کہ یہ بلیک منی سسٹم میں آ سکے۔

جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ ایکٹ کو ختم کر سکتی ہے۔

‏سماعت کے آخر پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے جیل میں سہولیات نہ دینے کے حوالے سے شکایت کی تو اٹارنی جنرل نے کہا ہم نے رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ تمام سہولتیں دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان سے استفسار کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس پر عمران خان بولے، جی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس طرح مجھے رکھا گیا ہے اور جیسے نواز شریف کو رکھا گیا آپ موازنہ کر لیں۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے، آپ کے حوالے سے چیک کر سکتے ہیں، کسی اور کا نہیں کر سکتے۔

عمران خان نے کہا کہ ایک کرنل صاحب یہاں اڈیالہ جیل میں چیزیں مینج کرتے ہیں۔ اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے، کرنل کو کرنل رہنے دیں اُس کو صاحب نہ بنائیں۔ آخر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بندہ کو بھیج دیتے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں سہولیات چیک کروا لیتے ہیں۔

دلائل ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس نے عمران خان سے معاونت پر اُن کا شکریہ ادا کیا جب کہ جواب میں عمران خان نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا شکریہ ادا کیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG