رسائی کے لنکس

بھارتی انتخابات کے نتائج: کیا پاکستان کی پالیسی میں کوئی فرق آئے گا؟


  • بھارت میں عام انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت بی جے پی تن تنہا اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔
  • نریندر مودی اپنے اتحاد این ڈی اے کی مدد سے ایک مرتبہ پھر وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالیں گے۔
  • بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کے مطابق نریند مودی دونوں ملکوں کے درمیان نئی شروعات کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد — بھارت کے عام انتخابات میں سامنے آنے والے نتائج پر بعض پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے اسلام آباد کی نئی دہلی سے متعلق پالیسی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ البتہ متوقع بھارتی وزیر اعظم نریند مودی دونوں ملکوں کے درمیان نئی شروعات کر سکتے ہیں۔

پاکستان بھارت کے انتخابات اور نئی قائم ہونے والی حکومت کو کیسے دیکھتا ہے اس بارے میں تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ انتخابی نتائج سے برِصغیر کے روایتی حریف ممالک کے درمیان تعلقات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئے گی۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے مذاکرات کا آغاز بھارت کو کرنا ہے۔ اگر نریندر مودی اپنا سیاسی ورثہ چھوڑنا چاہتے ہیں تو ہمسایہ ملک کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کی طرف جائیں گے۔

بھارت کے عام انتخابات میں اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو تن تنہا سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن وہ اپنے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور اتحادی حکومت ہونے کے باوجود خارجہ پالیسی اب بھی نریندر مودی کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نریند مودی کشمیر پر اپنی پالیسی تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کشمیر کی خود مختار حیثیت کے یکطرفہ خاتمے کو واپس لیے بغیر پاکستان کے لیے بات چیت کرنا آسان نہیں ہے۔

ان کے بقول نریند مودی نے پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد پاکستان کی طرف قدم بڑھایا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا اور اب بھی یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات میں سنجیدہ اقدام لے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور سنوبر اسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ نریندر مودی اگر چاہتے ہیں کہ وہ سیاست میں اپنی میراث چھوڑ کہ جائیں تو پھر وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی طرف آئیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کے وزیرِ خارجہ نے گذشتہ دنوں پنجاب کے سکھ رہنماؤں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب پاکستان سے مذاکرات کریں گے تو ان سے کرتارپور یاتریوں کی ویزہ فیس کم کرنے کا بھی کہیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے ماضی کی طرح بھارت پر بیرونی دباؤ بھی نہیں ہے اور مذاکرات کا فیصلہ صرف نریندر مودی نے لینا ہے۔

'مذاکرات کا آغاز بھارت کو کرنا ہوگا'

اشرف جناگیر قاضی کے مطابق بھارت چاہے گا کہ پاکستان کے ساتھ مسائل پر بات چیت کے ساتھ ساتھ تجارتی و دیگر تعلقات کو بڑھایا جائے۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھانا ممکن نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کے امکانات اس وجہ سے بھی کم دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات خراب اور خارجہ سطح پر اہمیت کم ہوگئی ہے اور ان وجوہات کی بنا پر بھی بھارت پر پاکستان کے حوالے سے کوئی خاص دباؤ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ نریندر مودی بحیثیت اتحادی وزیر اعظم اپنے رویے میں کیا تبدیلی لائیں گے۔

ڈاکٹر قمر چیمہ سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی چھ ماہ سے سال تک پاکستان کی طرف بات چیت کا پیغام دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ پیغام صرف پیغام کی حد تک ہی ہوگا یا اس پر دونوں ملک سنجیدگی دکھائیں گے یہ دیکھنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت بھارت سے متعلق سابق قیادت سے مختلف سوچ رکھتی ہے اور آرمی چیف سید عاصم منیر سمجھتے ہیں کہ بھارت کو متعدد بار بات چیت کے پیغامات بجھوائے لیکن ان کا مثبت جواب نہیں آیا۔

ان کے بقول پاکستان چاہے گا کہ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا آغاز ہو. لیکن یہ اقدام بھارت کو لینا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے پاکستان اور بھارت کو مذاکرات سے قبل کی شرائط ختم کرنا ہوں گی۔

قمر چیمہ کہتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے پر نریندر مودی کے دور میں عمل درآمد پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارت کاری اور اعتماد سازی کی ایک کامیاب مثال ہے جس کو دیکھتے ہوئے دونوں ملک آگے بڑھ سکتے ہیں۔

'پاکستان نریندر مودی کو خیرسگالی کا پیغام بجھوائے گا'

کیا پاکستان بھارت کے انتخابات اور وزیر اعظم منتخب ہونے پر نریندر مودی کو مبارک باد کا پیغام بجھوائے گا۔ اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کے بعد نئی دہلی کو ایک رسمی مبارک باد دے گا۔

اسلام آباد کی جانب سے بھارتی انتخابی نتائج پر کوئی باضابطہ ردِعمل نہیں آیا ہے جب کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم چین کے دورے پر ہیں۔

اشرف جہانگیر قاضی کہتے ہیں کہ پاکستان سفارتی مراسم کے تحت بھارت کو انتخابات اور نئے وزیر اعظم کو رسمی مبارک باد دے گا۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چونکہ صرف ایک ایکس پوسٹ کے ذریعے شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی تھی تو پاکستان بھی اسی انداز میں پیغام بجھوا کر تقاضہ پورا کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف خط کے ذریعے بھی نریندر مودی کو مبارک باد دے سکتے ہیں جو کہ اسلام آباد کی طرف سے ایک قدم بڑھ کر پیغام ہوگا۔

ڈاکٹر قمر چیمہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اپنے منصب سنبھالنے پر بھی مبارک باد کے پیغام نہیں بجھوائے تھے جب کہ وزیرِ اعظم کو بھی صرف ایک ایکس پوسٹ کے ذریعے مبارک باد دی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی سفارتی آداب کے تحت ہی چلے گا اور بھارت کو خطوط نہیں لکھے گا۔ البتہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر پوسٹ کے ذریعے ہی مبارک باد دے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ صرف ایک پوسٹ کی بنیاد پر پاکستان بھارت کو گرم جوشی کا پیغام نہیں دے سکتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG