رسائی کے لنکس

بلوچستان: مبینہ جبری گمشدگیوں کے کیسز میں اضافے کا دعویٰ


  • بلوچستان میں طویل عرصے سے لاپتا افراد کا معاملہ چلا آ رہا ہے۔
  • لاپتا افراد کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جاتا ہے۔
  • حکام ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔ صوبائی وزیرِ داخلہ کے بقول اس طرح کے بیانات ریاست کے خلاف سازش ہے۔

کوئٹہ — پاکستان کے صوبے بلوچستان میں نوجوانوں کو مبینہ طور پر جبری لاپتا کیے جانے کے واقعات میں اضافے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' اور انسانی حقوق پر کام کرنے والی 'بلوچ یکجہتی کمیٹی' نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ماہ مئی میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 68 افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا۔

ان تنظیموں کے مطابق سب سے زیادہ گمشدگیوں کے واقعات بلوچستان کے مکران ڈویژن میں رونما ہوئے ہیں۔ تنظیموں کے بقول ان علاقوں میں تربت، گوادر، پنجگور شامل ہیں جب کہ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، ڈیرہ مراد جمالی، خضدار، نوشکی، ماشکیل اور دیگر علاقوں میں بھی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

البتہ بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر ضیاء اللہ لانگوں ان تنظیموں کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات ریاست کے خلاف ایک سازش ہے۔ بلوچستان حکومت کے پاس مئی کے مہینے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گمشدگیوں کے حوالے سے کسی قسم کی رپورٹ نہیں ہے۔

صوبائی وزیرِ داخلہ کے مطابق یہ تنظیمیں مسلسل غلط بیانی کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمۂ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) صرف ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو ریاست کے خلاف کام کرتے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں۔

تاہم تربت سے تعلق رکھنے والے لاپتا افراد کے لواحقین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ 27 مئی کو ان کے ایک ہی گھر سے تین طالبِ علموں کو لاپتا کیا گیا۔

لاپتا ہونے والے فاروق بلوچ، شہک بلوچ اور وزیر بلوچ کی خالہ زاد بہن ماہ نور بلوچ نے بتایا کہ فورسز نے رات دو بجے کے قریب مبینہ طور پر بروری روڈ پر واقع ایک فلیٹ پر چھاپہ مارا اور وہاں سے چھ طالب علموں کو اپنے ساتھ لے گئیں۔

ان کے بقول بعد ازاں فورسز نے تین طالبِ علموں کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ فورسز نے شہل اور وزیر بلوچ کو پانچ روز بعد بازیاب کر دیا۔ لیکن فاروق بلوچ تاحال لاپتا ہیں۔

ماہ نور بلوچ کا کہنا ہے کہ فاروق ایف ایس سی کے طالب علم ہیں اور حال ہی میں فسٹ ایئر امتحان پاس کیا تھا۔ وہ کوئٹہ میں میڈیکل کی تیاری کرنے آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ فاروق بلوچ کے لاپتا ہونے کے بعد گھر میں سوگ کا سما ہے اور سب پریشان ہیں۔ فاروق کی والدہ اس صدمے کے بعد اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

فاروق بلوچ کی بازیابی کے لیے پیر کو ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی حال ہی میں جاری کردہ 2023 کی پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ سال انسانی حقوق کے حوالے سے بھیانک سال رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لاپتا افراد کے کمیشن کے مطابق 2023 کے اختتام تک 2299 کیسز بدستور حل طلب ہیں۔ اس سال 4413 واقعات میں لاپتا افراد گھروں کو لوٹ کر آ چکے تھے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق 994 کیسز میں متاثرین حراستی مراکز میں پائے گئے جب کہ 261 کیسز میں متاثرین کی لاشیں ملیں۔

اس سے قبل 'بلوچ یکجہتی کمیٹی' کے رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 68 افراد لاپتا ہوئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رکن صبغت اللہ شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اوسطاً دو بلوچوں کو روزانہ کے بنیاد پرجبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کے بقول یکم مئی سے 31 مئی تک زمران، گشگور، تمپ، گوادر، ڈیرہ بگٹی، تربت، کیچ، آواران، ڈیرہ مراد جمالی اور کوئٹہ سے تین درجن سے زائد افراد کو لاپتا کیا گیا۔

صبغت اللہ نے کہا کہ 'بلوچ یکجہتی کمیٹی' ان مسائل پر جولائی کے مہینے میں ایک تاریخی قومی اجتماع منعقد کرے گی۔

ادھر وائس فار 'بلوچ مسننگ پرسنز' کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے جو کہ تشویش کا باعث ہے۔

نصراللہ بلوچ نے وائس وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صرف مئی کے آخری ہفتے کے دوران کوئٹہ، جعفرآباد، مشکے، ماشکیل، آبسر، تربت، کیچ، نوشکی اور ڈیرہ بگٹی سے تقربیاً 17 افراد لاپتا کئے گئے۔

ان کے مطابق رواں سال جنوری سے مئی تک 150 کے قریب لوگ لاپتا ہوئے تھے۔

نصراللہ بلوچ نے لاپتا افراد کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ سال 2009 سے لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھنکنے کا عمل شروع ہوا۔ سال 2009 سے اب تک تقریباً دو ہزار پانچ سو افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں۔

ان کے بقول وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد و شمار میں تعداد سات ہزار کے قریب ہے جب کہ دو ہزار 500 کے قریب افراد بازیاب ہوچکے ہیں۔

لاپتا افراد کا معاملہ: 'بعض ادارے عدالتوں سے زیادہ طاقت ور ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگی کے واقعات کے حوالے سے مختلف اوقات میں حکومت کی جانب سے بیانات آتے رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران لاپتا افراد کا ذکر کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل احمد شریف نے کہا تھا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا اسے پیش کیا گیا ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ صرف پاکستان تک نہیں۔ پوری دنیا میں یہ مسئلہ موجود ہے۔

ان کے بقول بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں بھی شامل تھا۔

لاپتا افراد کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ مارچ 2011 سے ایک آزاد کمیشن بنایا گیا۔ اب تک مسنگ پرسنز کے کمیشن کے پاس 10 ہزار 218 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 80 فی صد یعنی سات ہزار کیسز کو کمیشن نے حل کر دیا۔

ان کے بقول دنیا بھر میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔

مبینہ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافے سے متعلق جب بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جو تنظیمیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنے دعوے کو ثابت کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص لاپتا ہوا بھی ہے تو اس سلسلے میں ایک کمیشن کام کر رہا ہے اور ہر ماہ اس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں لاپتا افراد کے کیسز کا اندراج ہوتا ہے۔

اگر تنظم کے پاس اس دعوے کے شواہد ہیں تو وہ لاپتا افراد کمیشن کو پیش کریں تاکہ ان افراد کو تلاش کرنے کے لیے کوششیں عمل میں لائی جائیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG