رسائی کے لنکس

بھارتی انتخابات میں منقسم مینڈیٹ: ’مودی اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلا پائیں گے‘


  • مبصرین کے مطابق پالیسیوں میں اختلاف کے باعث مودی کے لیے اتحادی حکومت چلانا آسان نہیں ہو گا
  • بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی جماعتون پر انحصار کرنا پڑے گا۔
  • اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق عوام نے بی جے پی کی فرقہ واریت کی سیاست کو لگام دے دی ہے

نئی دہلی۔ بھارت میں پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج نے سب کو چونکا دیا ہے۔ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے اور اس نے متعدد اہم سیٹیں گنوا دیں اور بہت سے مرکزی وزرا شکست کھا گئے ہیں۔

تاہم نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ نریندر مودی آٹھ جون کو وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف لے سکتے ہیں۔ انھوں نے بدھ کو اپنے دفتر میں کابینہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا اور حکومت سازی پر تبادلہ خیال کیا۔

انتخابات کے دوران سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے غیر متوقع طور پر بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جسے حیرت انگیز کہا جا سکتا ہے۔ مبصرین اسے کانگریس کی سیاسی میدان میں واپسی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

البتہ بی جے پی کی قیادت والے محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ اسے 292 نشستیں ملی ہیں۔ تاہم بی جے پی حکومت سازی کے لیے مطلوبہ کم از کم 272 سیٹوں سے کافی پیچھے رہ گئی ہے۔ اسے 240 نشستیں ملی ہیں۔

اسی طرح اپوزیشن کے محاذ ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کو مجموعی طور پر 234 اور کانگریس کو 99 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔

بی جے پی اور اتحادیوں کی پالیسیاں کتنی مختلف؟

مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی اور بالخصوص وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنی خواہش کے مطابق حکومت نہیں کر پائیں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو دو حلیف جماعتوں ’تیلگو دیسم پارٹی‘ (ٹی ڈی پی) اور ’جنتا دل یونائٹڈ‘ (جے ڈی یو) کے رحم و کرم پر رہنا ہو گا۔

یاد رہے کہ ان دونوں پارٹیوں کو مجموعی طور پر 28 سیٹیں ملی ہیں۔ ٹی ڈی پی کے رہنما چندر بابو نائڈو اور جے ڈی یو کے رہنما نتیش کمار کا بی جے پی سے پرانا رشتہ ہے لیکن اس رشتے میں اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان دونوں کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب اور کیا قدم اٹھائیں گے۔ بہت سے ایشوز، جیسا کہ ون نیشن ون الیکشن اور یونیفارم سول کوڈ وغیرہ معاملے پر وہ بی جے پی کے موقف کے خلاف ہیں۔ لہٰذا ان امور پر بی جے پی از خود کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گی۔

قابل ذکر ہے کہ انتخابی مہم کے دوران وزیرِ اعظم مودی نے کانگریس پر بار بار الزام لگایا تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو حاصل ریزرویشن (یعنی ان کے لیے سیٹوں کا کوٹہ) مسلمانوں کو دے دے گی۔

لیکن اسی دوران چندر بابو نائڈو نے اعلان کیا تھا کہ اگر ریاست میں ان کی پارٹی کی حکومت بنی تو وہ پسماندہ مسلمانوں کو ملازمتوں میں چار فی صد ریزرویش دے گی۔ آندھرا پردیش میں اسمبلی انتخابات بھی ہوئے ہیں اور ٹی ڈی پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

بھارت: سات مراحل میں ہونے والے انتخابات کی سات اہم باتیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:04 0:00

مبصرین کہتے ہیں کہ ووٹرز نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں دی۔ انتخابی نتائج کا پیغام بہت واضح ہے کہ بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک تھا اور رہے گا۔ یہاں کے عوام آمریت کو پسند نہیں کرتے۔

اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق عوام نے بی جے پی کی فرقہ واریت کی سیاست کو لگام دے دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی عوام کے سامنے جواب دہ رہے اور تعمیری انداز میں کام کرے۔ اسے اس پیغام کو جمہوری جذبے کے ساتھ لینا ہو گا اور 10 سالہ حکومت کے بعد مخلوط حکومت کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہو گا۔

’400 پار کا نعرہ‘

سینئر تجزیہ کار اور صحافی آشوتوش کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے رکن پارلیمان اننت ہیگڑے جیسے بعض سیاست دانوں کے اس بیان نے کہ بی جے پی کو 400 سیٹیں اس لیے چاہئیں تاکہ وہ آئین کو بدل سکے، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ناراض کر دیا۔

ان کے مطابق ان کو یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ بی جے پی ان کے آئینی حقوق سلب کر لے گی۔ لہٰذا ان طبقات کی جانب سے خاموش مگر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا۔

جب کہ کانگریس رہنما راہل گاندھی اور دوسرے اپوزیشن رہنما انتخابی ریلیوں میں آئین کی کاپی ساتھ رکھتے تھے اور عوام کو دکھا دکھا کر ا س کے تحفظ کا عہد کرتے تھے۔

’این ڈی ٹی وی‘ کی ویب سائٹ کے لیے اپنے تجزیاتی مضمون میں آشوتوش مزید لکھتے ہیں کہ دلت رہنما بابا صاحب امبیڈکر آئین سازی کے معمار تھے اور دلتوں کو یہ اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ امبیڈر کے ورثے پر حملہ کیا جا رہا ہے۔

ایئل یونیورسٹی آسٹریلیا میں لیکچرر سوشانت سنگھ نے کلکتہ کے اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں اپنے مضمون میں بانسواڑہ میں مسلمانوں کے خلاف وزیرِ اعظم مودی کی تقریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان کی تقریر سے بہت سے لوگ دنگ رہ گئے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔

ان کے مطابق وزیرِ اعظم نے انتخابی مہم کے دوران اپنی 10 سالہ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے بجائے اپنے خطاب میں مسلم مخالفت کو مرکز میں رکھا۔ انھوں نے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا اور اپنی تقریروں میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کا ذکر کیا۔ لیکن ان ایشوز سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

اس کے علاوہ عوام نے مہنگائی، بے روزگاری، چار سال کے لیے فوج میں بھرتی کی اسکیم اگنی ویر، کسانوں کے ساتھ حکومت کے سلوک اور ان جیسے دیگر ایشوز کے خلاف بھی اپنا فیصلہ دیا ہے۔

مضبوط اپوزیشن

انتخابی نتائج نے اپوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں اپوزیشن بہت کمزور تھی۔ 2019 کے انتخابات میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کو صرف 52 سیٹیں ملی تھیں۔

پارلیمان کے دونوں ایوانو ں میں حزبِ اختلاف کے ارکان کی کمی کی وجہ سے حکومت کو اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں آسانی تھی۔

لیکن اب حکومت کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اپوزیشن کا مضبوط ہونا اور دوسرے حکومت کا دو حلیف جماعتوں کے رحم و کرم پر رہنا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت نے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔ اپوزیشن رہنماؤں کا الزام ہے کہ ان کے خلاف سرکاری اداروں جیسے کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی)، سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) اور محکمہ انکم ٹیکس کا استعمال کیا گیا۔

یاد رہے کہ ای ڈی نے منسوخ شدہ متنازع دہلی شراب پالیسی معاملے میں دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے۔ نائب وزیرِ اعلیٰ منیش سسودیا کو پہلے ہی جیل میں ڈالا جا چکا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رکنِ پارلیمان سنجے سنگھ کو جیل بھیجا گیا تھا لیکن وہ ضمانت پر باہر ہیں۔

اسی طرح جھارکھنڈ کے وزیرِ اعلیٰ ہیمنت سورین کو بھی مالی بدعنوانی کے ایک کیس میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا الزام ہے کہ اس کا مقصد حزب اختلاف کو کمزور کرنا ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ سرکاری ایجنسیاں آزاد ہیں اور وہ بدعنوانی کے خلاف اپنے طور پر کارروائی کر رہی ہیں۔ اس کا یہ بھی استدلال ہے کہ وہ بدعنوان سیاست دانوں کو چھوڑے گی نہیں۔

گزشتہ پارلیمان میں جب حکومت کی متنازع پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے تو انھیں ایوان سے معطل کر دیا جاتا۔ تقریباً 150اپوزیشن ارکان کو معطل کر دیا گیا تھا۔

حکومت کا کہنا تھا کہ چوں کہ وہ پارلیمانی اجلاس کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اس لیے انھیں معطل کیا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے بینک اکاونٹس بھی منجمد کر دیے گئے۔

مہاراشٹر کی سیاسی جماعتوں شیو سینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) میں تقسیم کرائی گئی۔ کانگریس سمیت بہت سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف چھاپے ڈالے گئے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اب حزبِ اختلاف کے خلاف اس طرح کارروائی نہیں کر پائے گی جیسے کہ پہلے کیا کرتی تھی۔

نئی دہلی کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ انتخابی نتیجہ اپوزیشن جماعتوں، انڈیا اتحاد اور خاص طور پر کانگریس رہنما راہل گاندھی کے لیے خوش آئند ہے۔ راہل اور ان کی پارٹی کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کی آواز اٹھانے اور حکومت کو اسے سننے پر مجبور کرنے کے لیے اپنے منتخب ارکان کا استعمال کریں۔

اخبار کے مطابق انتخابی نتیجہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے پیغام رکھتا ہے۔ ووٹرز نے صرف حکومت بنانے کے لیے اپنا فیصلہ نہیں دیا ہے بلکہ اپوزیشن کے حق میں بھی دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG