رسائی کے لنکس

غزہ: اسرائیلی حملے میں 30 فلسطینی ہلاک؛ اعلیٰ امریکی ایلچی جنگ بندی پر زور کے لیے خطے میں موجود


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • اسرائیلی فوج نے جس اسکول کو نشانہ بنایا وہ اقوامِ متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے 'یو این آر ڈبلیو' کے زیرِ انتظام چل رہا تھا۔
  • اسکول حماس کے کمپاؤنڈ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، اسرائیلی فوج کا دعویٰ
  • اسرائیلی حملے کے بعد دیر البلاح میں واقع الاقصی شہداء اسپتال میں 30 فلسطینیوں کی لاشیں لائی گئی ہیں۔
  • غزہ جنگ بندی کے منصوبے پر پیش رفت کے لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ معاونین مشرقِ وسطیٰ میں موجود
  • حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کی تباہی کے بغیر کوئی مستقل جنگ بندی نہیں ہو گی، نیتن یاہو
  • مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا، حماس رہنما

اسرائیل نے جمعرات کو وسطی غزہ میں پناہ گاہ کے لیے استعمال ہونے والے ایک اسکول پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مقامی حکام کے مطابق پانچ بچوں سمیت کم از کم 30 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ تاہم اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اسکول کو حماس کے کمپاؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔

اسرائیلی فوج نے جس اسکول کو نشانہ بنایا وہ اقوامِ متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے 'یو این آر ڈبلیو' کے زیرِ انتظام چل رہا تھا اور غزہ جنگ کے متاثرین وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

اسرائیلی حملے کے بعد دیر البلاح میں واقع الاقصی شہداء اسپتال میں 30 فلسطینیوں کی لاشیں لائی گئی ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے اسکول پر حملہ کیا جس کے بارے میں اس نے فوری طور پر ثبوت پیش کیے بغیر دعویٰ کیا کہ حماس اور اسلامی جہاد اپنی کارروائیوں کے لیے اسے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ادارے کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اس کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول پناہ گاہوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کے اسکول پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ معاونین تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے منصوبے پر پیش رفت کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں۔

امریکی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کے ڈائریکٹر بل برنز منگل کو دوحہ پہنچے تھے اور بائیڈن کے مشرقِ وسطیٰ کے اعلیٰ مشیر بریٹ میک گرک بدھ کے روز قاہرہ میں تھے۔ امریکی حکومت کے حکام نے وائس آف امریکہ کو اعلی اہلکاروں کی مشرقِ وسطیِ میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔

توقع ہے کہ امریکی اہلکار بائیڈن کے اس پیغام کو پہنچائیں گے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس ثالثوں قطر اور مصر کے ذریعے جنگ بندی کی تجویز کے معاہدے پر دستخط کردیں۔

صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے غزہ جنگ بندی کے لیے اسرائیلی جنگی کابینہ کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کا اعلان کیا تھا۔ ان تجاویز کے تحت لڑائی میں چھ ہفتوں کا ابتدائی وقفہ ہو گا اور حماس کے ہاتھوں کچھ یرغمالوں اور اسرائیلی جیلوں میں نظر بند فلسطینیوں کی رہائی شامل تھی۔

ابھی تک اسرائیلی حکومت اور حماس کی جانب سے جنگ بندی تجویز پر دو ٹوک آمادگی کا کوئی واضح اظہار سامنے نہیں آیا ہے۔

اسرائیلی جنگی کابینہ کی جانب سے پیش کردہ تجویز کی منظوری کے باوجود وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کی تباہی کے بغیر کوئی مستقل جنگ بندی نہیں ہو گی۔

رفح: 'صورتِ حال آپ کی سوچ سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:52 0:00

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے بدھ کو کہا تھا مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

غزہ جنگ بندی کے لیے صدر بائیڈن نے رواں ہفتے کے شروع میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے بات بھی کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ یہ منصوبہ "غزہ میں بحران کے خاتمے کے لیے ایک ٹھوس روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔"

گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے جواب میں تباہ کن اسرائیلی کارروائیوں سے بچنے کی خاطر غزہ کے 23 لاکھ فلسطینیوں کی زیادہ تر آبادی بے گھر کر ہو کر رہ گئی ہے۔

غزہ جنگ کے دوران حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق 36 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

اسرائیل نے غزہ جنگ کا اعلان حماس کے حملے کے بعد کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 253 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG